از:ڈاکٹر ایم اجمل، ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون

(۱) دنیامیں انسان کی آمد، انسان کا خالق سے رشتہ، انسان کا مخلوق سے رشتہ، انسان کا کائنات سے رشتہ، انسان کا انسان سے رشتہ مرد اور عورت کا کائنات میں کام ومقام یہ چند بہت اہم بنیادی سوالات رہے ہیں۔ جن کا جواب تاریخ کے ہر دور میں آسمانی ہدایت کے تحت بھی دیا گیا اور خالص فلسفیانہ اور عقلی جوابات بھی دئے گئے۔ اسی طرح کے اہم ترین سوال یعنی اختلافِ مرد و زن و حیثیت مرد وزن پر حالیہ دور میں پھر اختلاف اور بحث چھڑی ہوئی ہے۔ ہوا یہ کہ ماہ جنوری میں ایک مباحثہ کے دوران دنیا کی 100 سب سے بہتر یونیورسٹیوں میں نمبر ایک کی یونیورسٹی ہارورڈ کے صدر لیری سمرس (Larry Summers) نے ایک سوال کے جواب میں یہ کہہ دیا کہ حساب اور انجینئرنگ جیسے مضامین میں خواتین کی کم نمائندگی کی وجہ حیاتیاتی اختلافات (جسمانی) ہوسکتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے انھوں نے دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ممالک میں اس سلسلہ میں ہوئی ریسرچ کا حوالہ بھی دیا۔ امریکہ کی ایک تحقیق میں کیمیلا بینبو (Camilla Benbow) اور ڈیوڈ لیبنکی (Daid Lubinski) 20 سال تک ذہین طلباء کے ریکارڈ کے مطالعہ سے پتہ چلا کہ لڑکے حساب، کمپیوٹر سائنس اور انجینئرنگ میں بہتر صلاحیت دکھاتے ہیں اور لڑکیاں بایولوجی، سماجیات اور عمرانیات میں زیادہ بہتر صلاحیت اور دلچسپی دکھاتی ہیں۔ جرمنی کی گین یونیورسٹی کے سائنسداں پیٹرا کیمپل وغیرہ نے اس کی ایک امکانی وجہ زمانہ حمل میں نر جنین کا مردوں کے خاص ہارمون (Testosterone) سے زیادہ فیضیاب ہونا بتایا ہے۔ جبکہ مادہ جنین کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ وکاس سنگھ ٹائمس آف انڈیا 30/1/05 لیری سمرس کے اس علمی انکشاف کے بعد دنیا بھر میں اس موضوع پر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ امریکہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ امریکی اسکولوں میں اساتذہ میں خواتین اساتذہ کی تعداد 35% ہے مگر حساب اور سائنس کے میدان میں یہ تعداد 20% رہ جاتی ہے۔ ٹائمس آف انڈیا 28/1/05 ۔

ایک اور تحقیق جو کہ 7/2/05 کو شائع ہوئی اس کے مطابق مردوں کا دماغ خواتین کے مقابلہ 4 گنا تیزہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق مردوں کے دماغ کے خلیات Cells میں پیغامات کی ترسیل کی رفتار خواتین کی رفتار سے 4گنا زیادہ ہوتی ہے۔ ٹورنٹو یونیورسٹی کے پروفیسر ایڈ اور فلپ ورنان اور یونیورسٹی آف ویسٹرن اونٹاریو کے اینڈریو جائسن نے اپنی تحقیقات کی روشنی میں بتایا کہ ہم نے 186 مرد طلباء اور 201 طالبات پر مختلف سائنسی تجربات سے دونوں کے دماغی خلیات کی رفتار کار میں یہ فرق پایا۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ مردوں کے دماغی خلیات پر ایک حفاظتی مادّہ مائلین Myelin کی پرت خواتین کے خلیات کے مقابلہ زیادہ موٹی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان خلیات کے درمیان اور آپس میں خواتین کے خلیات کے مقابلہ زیادہ سرعت سے پیغامات ارسال ہوتے ہیں۔

(۲) سائنسدانوں نے پایا کہ کسی شے کو دیکھنے کے بعداس کی اطلاع کو آنکھ سے دماغ کے اُس حصہ تک پہنچنے میں جہاں سے اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے جو وقت لگتا ہے وہ مدت خواتین میں زیادہ ہے۔

راجر ڈابسن اور آئبرڈیل۔ سنڈے ٹائمز لندن بحوالہ 7/2/05 to 1 ان سائنسی انکشافات کے بعد ”جدیدیت“ اور ”سائنسی فکر“ کے حاملین نے عجیب غیر سائنسی اور اڑیل رویہ اپنایا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ اختلاف یا فرق بناوٹ کا نہیں ماحول کا ہے۔ کیونکہ عرصہٴ دراز سے خواتین کی حق تلفی ہوتی رہی ہے ان کو کمتر، کم عقل اور کمزور بتایا گیا ہے تو شاید انھوں نے بھی ایسا مان لیا ہے ورنہ اگر ان کو مردوں کے برابر مواقع ملیں تو وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ وغیرہ۔

مگر مغرب کے ہی بڑے بڑے مفکرین اور محققین بھی کوئی ”دقیانوسی ملاّ“ تو نہیں ہیں اگر وہ تجربات کی روشنی میں کچھ رائے اور نتائج پیش کررہے ہیں تو یا تو اسے مان لینا چاہئے یا اسے ردّ کرنے کے لیے علمی، عقلی ، تاریخی دلائل لانے چاہئیں۔ ورنہ بقول پروفیسر اسٹیون پنکر Steven Pinker کے کہ کسی سائنسی رائے کو پیش کردینے سے ہی اتنا مشتعل ہوجانا اور کوئی دلیل نہ دینا سچائی کو جارح بتانے جیسا ہے۔ پروفیسر موصوف اسی ہارورڈ یونیورسٹی میں علم النفسیات کے پروفیسر ہیں۔ انسانی سماج میں مرد اور عورت کی ذمہ داریاں، حقوق اور دائرئہ کار کے بارے میں جو الٰہی رہنمائی ملتی ہے اُس کے برخلاف جب بھی انسانوں نے چلنے کی کوشش کی تو یاتو عورت کو دیوی بنایا یا دیوداسی۔ مگراس کواس کا صحیح مقام، مرتبہ اور دائرئہ کار نہیں دیا۔ اس حقیقت سے کیسے انکار ممکن ہے کہ مرد اور عورت دونوں کی بناوٹ، مزاج، رجحانات، اندرونی نظام اور ہارمون کانظام اور ان کے افعال سب انتہائی مختلف ہیں۔ اب یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک جیسے ہی کاموں کے لیے اتنی الگ مخلوق بنائی جاتی؟ اگر مرد اور عورت دونوں ایک جیسے کام کرسکتے ہیں یا ایک جیسی ذمہ داریاں اٹھاسکتے ہیں تو دونوں میں اتنا واضح بدنی، ذہنی ، نفسیاتی فرق کیوں ہے؟

عورتوں کو کمزور بتاکر ان پر ظلم کرنا کسی بھی الٰہی رہنمائی کے شایان شان نہیں ہے۔ جن طاقتوں نے عورتوں کی ترقی کے نام پر انہیں 24 گھنٹہ کام پر لگادیا ہے، وہ ہی دراصل سب سے بڑے ظالم ہیں۔ ورنہ شریعت نے دونوں کو ان کے لیے موزوں دائرئہ کار مختص کیا ہے۔ اسی لحاظ سے عائلی اور سماجی قوانین بنائے گئے ہیں۔ ترغیبات کے ذریعہ حسن سلوک کی تلقین کی گئی ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا بات ہوگی کہ آخری خطبہ میں اور آخری وصیت میں حضور اکرم … نے عورتوں سے خصوصی بہتر برتاؤ کی تلقین کی۔ جن جدید و قدیم تہذیبوں نے اس تقسیم دائرئہ کار کو نظر انداز کیا انھوں نے مردوزن دونوں کے ساتھ ظلم کیا۔ سائنس جوں جوں ترقی کرے گی اور حقیقتوں سے پردہ اٹھائے گی اسلام کا چہرہ روشن سے روشن تر ہوتا جائے گا۔ باطل کا پروپیگنڈہ بیکار جائے گا۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ6، جلد: 89 ‏، ربیع الثانی ‏، جمادی الاول1426ہجری مطابق جون 2005ء

Related Posts