از: مفتی محمد ساجد قاسمی ہردوئی

استاذ تفسیر و ادب دارالعلوم دیوبند

تکثیری سماج میں اہل مذاہب کے حقوق

اسلام اپنی زیر نگرانی جوتکثیری سماج قائم کرتاہے اس میں وہ دیگر اہل مذاہب کو شہریت کے حقوق ، مذہبی آزادی اور کسی سے بھی معاہدے کا حق دیتا ہے؛ البتہ وہ حکومت کے مخالفین سے معاہدہ کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ دیگراہل مذاہب (ذمیوں) کے سلسلے میں عمومی ضابطہ یہ ہے کہ ” أن لھم مالنا، وعلیھم ما علینا“ ترجمہ: ان کو وہ حقوق حاصل ہوں گے جو ہم(مسلمانوں) کو حاصل ہیں اور ان پر وہ ذمے داریاں ہوں گی جو ہم( مسلمانوں) پر ہیں؛ اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : انھوں نے جزیہ دینا اس لیے منظور کیا ہے؛ تاکہ ان کے جان و مال کی اسی طرح حفاظت کی جائے جس طرح مسلمانوں کے جان ومال کی حفاظت کی جاتی ہے۔

 ڈاکٹرعلی محی الدین قرہ داغی نے اپنی کتاب ”نحن والآخر“ میں ان کے حقوق کی تفصیل یوں تحریرکی ہے:

”(۱) اسلامی حکومت کسی بھی بیرونی حملہ آور سے ان کا تحفظ اور دفاع کرے گی ، علماکا اجماع ہے کہ ان سے جنگ کرنے والوں سے حکومت جنگ کرے گی ، خواہ وہ الگ شہروں میں رہتے ہوں۔ ان کے قیدیوں کوچھڑانا حکومت کی ذمے داری ہوگی۔

(۲)          ان کے جان وما ل اور عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے گی؛ بلکہ جس کو وہ مال مانتے ہیں مثلا شراب اور خنزیر اس کی بھی حفاظت حکومت کی ذمے داری ہوگی؛ اس لیے اگر کوئی مسلمان ان کوضائع کردیتاہے تومسلک حنفی کے مطابق اس کو معاوضہ دینا ہوگا۔حدیث شریف میں ہے کہ : ” من قتل معاھدا لم یرح رائحة الجنة وإن ریحھا توجد من مسیرة اربعین عاما“ ترجمہ : اگر کسی نے معاہد کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پا ئے گا ، اور جنت کی خوشبو چالیس سال کی دوری سے محسوس ہوگی۔

اس لیے فقہائے احناف کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کوقتل کردے تو اس کو بھی قتل کیاجائے گا۔ یہی رائے امام شعبی، امام نخعی، ابن ابی لیلیٰ اور عثمان البتی کی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اورعمر بن عبد العزیز سے بھی یہی منقول ہے ۔ عباسی اور عثمانی دور میں اسی پر عمل ہوا ہے۔

(۳) ان کے ساتھ انصاف کا معاملہ کیاجائے گا، اور ہر قسم کے ظلم وزیادتی سے ان کی حفاظت کی جائے گی،اس سلسلے میں بہت سی نصوص وارد ہوئی ہیں۔ مثلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” ألا من ظلم معاھدا، أو انتقصہ حقہ، أوکلفہ فوق طاقتہ، أو أخذشیئا بغیر طیب نفس منہ، فأنا حجیجہ یوم القیامة“ ترجمہ: اگر کسی نے معاہدپر ظلم کیا، یااس کا حق کم دیا، یا اس کو اس کی طاقت سے زیاد ہ کا مکلف بنایا، یااس کی رضامندی کے بغیر اس کی کوئی چیز لی تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے دعویدار بنوں گا۔

یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین اور ان کے بعدکے حکمراں خصوصی طو رپرخیال رکھتے تھے کہ ان پر کس قسم کا ظلم نہ ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مفتوحہ علاقوں سے آنے والوں سے ذمیوں کے متعلق دریافت کرتے رہتے تھے، وہ لوگ آپ کو یہی جواب دیتے تھے کہ: ”لانعلم إلا وفاء“ ترجمہ: ہماری دانست میں ان کے ساتھ معاہدے کے مطابق ہی معاملہ ہورہا ہے۔

(۴) فقروفاقہ ، معذوری اور بڑھاپے میں ان کی معاشی کفالت کی جائے گی؛ چنانچہ اگر کوئی غیر مسلم شہری تنگ دست، یا معذور ، یابوڑھا ہو جاتاہے تواسلامی حکومت اس کے لیے وظیفہ مقرر کرے گی اوریہ حکم نیا نہیں ہے؛ بلکہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حیرہ (عراق) کے عیسائی باشندوں کے لیے یہی حکم تحریر کیا: ”وجعلت لھم: أیما شیخ ضعف عن العمل، أوأصابتہ آفة من الآفات، أو کان غنیا فافتقر، وصار أھل دینہ یتصدقون علیہ، طرحت جزیتہ، وعیل من بیت مال المسلمین ھو وعیالہ ما أقام بدار الھجرة ودار الإسلام“ ترجمہ : میں نے ان کے لیے یہ طے کیا ہے کہ جو بوڑھا شخص کا م سے معذور ہوجائے گا ، یا وہ کسی آفت کا شکا ر ہوگا، یا مالداری کے بعد فقرو فاقہ میں مبتلا ہوجائے گا اور اس کے ہم مذہب اس کو صدقہ دیں تواس سے جزیہ معاف کردیاجائے گا اوراس کی اور اس کے بچوں کی بیت المال سے کفالت کی جائے گی جب تک وہ دار الہجرت اور دارالاسلام میں رہے گا۔

(۵)انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ جو معاہدے کیے ہیں ان کا احترام کیا جائے گا۔ امام ابویوسف نے نقل کیاہے کہ شام میں حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے ان سے ان شرطوں کے ساتھ معاہدہ کیا کہ ان کو امن وامان اور دشمنوں سے تحفظ فراہم کیا جائے گا؛ لیکن ہوا یہ کہ رومیوں نے مسلمانوں سے جنگ کے لیے بہت بڑا لشکر جمع کیا، حضرت ابو عبیدہ کو ڈر ہوا کہ کہیں وہ ان کا تحفظ نہ کرسکیں؛ اس لیے انھوں نے شہروں کے گورنروں کے پاس خط لکھا کہ ان سے جو جزیہ اورخراج لیا ہے اس کو واپس کردو، اور ان سے کہو کہ ہم نے تمہارا مال اس لیے واپس کردیا ہے کہ رومیوں نے ہم سے مقابلے کے لیے بہت بڑا لشکر تیار کیاہے، اور تم نے یہ شرط لگائی ہے کہ ہم تمہارا دفاع کریں، اب ہم اس پر قادر نہیں ہیں، اگر اللہ تعالی نے ہمیں فتح دی تو ہم اس شرط اور معاہدے کی پابندی کریں گے۔ جب انھوں نے ان سے یہ بات کہی اور ان سے وصول کیاہوا خراج و جزیہ واپس کیا، تو ان لوگوں نے کہا کہ: اگروہ (رومی) ہوتے توکچھ بھی واپس نہ کرتے؛ بلکہ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ بھی چین کر لے جاتے۔

(۶)ان کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی، اور مذہب اسلام کے قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں بہت سی آیات وارد ہوئی ہیں، مثلا: ﴿لا إکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی﴾(البقرة:۲۵۶) ترجمہ: مذہب کے معاملے میں کوئی جبر واکراہ نہیں ، ہدایت اور گمراہی واضح ہوچکی ہے۔ نیز ارشاد خداوندی ہے ﴿فمن شاء فلیوٴمن ومن شاء فلیکفر﴾(الکہف: ۲۹) ترجمہ : جوشخص چاہے ایمان لا ئے اور جو شخص چاہے کفر اختیار کرے۔یہ آیت کریمہ دھمکی کے سیاق میں وارد ہوئی ہے؛ تاہم اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ دنیا میں ایمان وکفر دونوں رہیں گے اور جزا وسزا اس پر آخرت میں ملے گی۔ نیزفرمایا: ﴿أفأنت تکرہ الناس حتی یکونوا موٴمنین﴾ (یونس:۹۹) ترجمہ: کیا آپ لوگوں کو مجبور کرسکتے ہیں؛ تاکہ وہ ایمان لے آئیں؟

انصاف پسند مستشرقین اورمغربی مفکرین نے اس مذہبی آزادی کا اعتراف کیاہے جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی؛ چنانچہ گوستاؤ لی بون (Gustave Le bon) کا کہنا ہے: ” مذکورہ بالا آیات سے ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کا یہودو نصاری کے ساتھ حد درجہ رواداری کا معاملہ تھا، اس کی مثال سابقہ مذاہب مثلا یہودیت اور عیسائیت کے بانیوں کے یہاں نہیں ملتی، آپ کے بعدآپ کے خلفا بھی آپ کے نقش قدم پر چلے ۔اس رواداری کا یورپی دانشوروں نے بھی اعتراف کیاہے۔“

(۷) انھیں اپنے مذہب کے مطابق کام ، معاملات اور مناکحت کی آزادی ہوگی۔ علامہ کاسانی نے صراحت کی ہے کہ اہلِ ذمہ کے خرید وفروخت کے معاملات مسلمانوں کی طرح ہیں ، جو معاملات مسلمانوں کے جائز ہیں وہ ان کے بھی جائز ہیں، اور جو مسلمانوں کے ناجائز ہیں وہ ان کے لیے بھی ناجائز ہیں؛ البتہ شراب اور خنزیر کے معاملات مستثنیٰ ہیں، جو کہ اہل ذمہ کے لیے خصوصی طور پر جائز ہیں مسلمانوں کے لیے جائز نہیں۔ نیز ان کے مذہب کے مطابق کیے گئے نکاحوں پر ان کوبرقرار رکھاجائے گا۔ ساتھ ہی مسلمان کے لیے کتابیہ عورت سے نکاح بھی جائز ہے؛چنانچہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ﴿ والمحصنت من الموٴمنات والمحصنت من الذین أوتوا الکتاب من قبلکم﴾(المائدہ: ۵)ترجمہ: اور پاک دامن موٴ من عورتیں اور ان میں سے پاکدامن عورتیں جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی۔

(۸) سرکاری عہدے اور مناصب سنبھالنا۔ ان کو سرکاری عہدے اور مناصب دیے جائیں گے؛ البتہ جن عہدوں پر مذہبی چھاپ غالب ہے وہ ان کو نہیں دیے جائیں گے۔ فقہا کا کہناہے کہ وزارت تنفیذ کا عہدہ ان کو دیناجائز ہے۔ جس میں وہ امام کا حکم لے کر نافذ کریں گے۔“( ۱۵)

تکثیری سما ج میں مسلم اقلیت کی ذمے داریاں

مذکورہ بالا گفتگو اس تناظر میں تھی جب کوئی تکثیری سماج اسلامی حکومت میں ہو اور مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے ماننے والے اس کا حصہ ہوں۔ اور اگر مسلمان بحیثیت مسلم اقلیت کسی تکثیری سماج کا حصہ ہوں تو ان پر کیا ذمے داریاں عائد ہوں گی۔ ڈاکٹر علی محی الدین قرہ داغی نے اس کی بھی وضاحت کی ہے جوبالاختصار درج ذیل ہے:

”(۱) مسلمانوں کے لیے ایسے معاہدوں اور معاملات کا ایفا ضروری ہے جو ان کے مسلمات دین سے متصادم نہ ہوں۔

(۲) حکومت اور وہاں کے باشندوں کے ساتھ خیانت، جھوٹ اور دھوکہ بازی کا کوئی معاملہ نہ کریں۔

(۳) ملکی قوانیں کی پابندی کریں بشرطیکہ وہ مسلمات دین سے متصادم نہ ہوں۔

(۴)سماج میں امن وامان قائم رکھیں۔

(۵) بہتر طریقے سے دوسروں کواسلام اور حق وانصاف کی دعوت دیں ۔ ہنگامہ خیزطریق کار سے گریز کریں۔

(۶) اسلام اور مسلمانوں کی مثبت اورحقیقی تصویر پیش کریں، اتحاد،بقائے باہم،تعاون اور بھائی چارگی کے جذے کو فروغ دیں۔“(۱۶)

اسلامی تاریخ سے تکثیری سماج کی چندجھلکیاں

 جیسا کہ مذکورہ بالا سطور سے معلوم ہو اکہ اسلا م دیگر اہل مذاہب کو جانی ومالی تحفظ، مذہبی آزادی اورحکومتی ذمے داریاں بھی دیتاہے؛ اس لیے عام طور پر اسلامی حکومتوں میں معاشرے تکثیری نوعیت کے ہوتے تھے ۔ جن میں دیگر اہل مذاہب کے ساتھ مذہبی رواداری کامعاملہ کیا جاتاتھا، ان کو مذہبی آزادی دی جاتی تھی اورصلاحیت ولیاقت کی بنیاد پر ان کوحکومتی عہدے بھی دیے جاتے تھے۔ ڈاکٹر مصطفی سباعی نے اپنی کتاب”من روائع حضارتنا“ میں مذہبی رواداری ، غیر مسلموں کومناصب کی سپردگی اور مذہبی آزادی کے چند نمونے ذکر کیے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:

”ایک مرتبہ نجران کے عیسائیوں کا وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے ان کو مسجدنبوی میں ٹہرایا، جب نماز کا وقت ہوا تو انھوں نے نماز پڑھنے کی اجازت مانگی ، آپ نے ان کو مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دی؛ چنانچہ مسجد میں ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نماز پڑ ھ رہے تھے اوردوسری طرف عیسائی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے وفد سے گفتگو کی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے خلفا بھی مذہبی رواداری کے حوالے سے آپ کے نقش قدم پر چلے؛ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عیسائیوں کا یہ مطالبہ کہ” ان کے محلوں میں کوئی یہودی نہ رہے“ پورا کیا۔ آپ قدس کے ایک بڑے کلیسا میں تھے اور نماز کا وقت ہوگیا، آپ سے وہیں نماز پڑھنے کے لیے کہا گیا، آپ نے وہاں نماز پڑھنے سے انکار کردیا ، کہیں مسلمان بعد میں وہاں مسجدبنانے کے لیے ا س کا مطالبہ نہ کرنے لگیں۔

اسلامی فتوحات کے دور میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ کلیسا میں عیسائی اورمسلمان ایک ہی وقت میں نمازادا کرتے تھے؛ چنانچہ دمشق میں کلیسا یوحنا جو بعد میں جامع اموی میں شامل کرلیا گیا، عیسائیوں نے آدھا کلیسا بخوشی مسلمانوں کو دے دیا، مسلمان بھی اس میں نماز پڑھنے کے لیے رضامند ہوگئے؛ چنانچہ منظر یہ ہوتا تھا کہ دو مختلف مذہبوں کے ماننے والے ایک جگہ پاس پاس اپنی اپنی عبادت کرتے تھے، یہ کعبہ کی طرف منہ کیے ہو ئے ہیں اور وہ مسجد اقصیٰ کی طرف۔

مذہبی رواداری کاایک مظہر یہ بھی تھا، کہ عہدے مذہب اور عقیدے سے قطع نظرباصلاحیت کو دیے جاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ اموی اور عباسی دور میں عیسائی اطبا کو خلفا کے یہاں اہم مقام حاصل تھا،بغداد اوردمشق کے طبی مدارس کی نگرانی عرصہٴ دراز تک عیسائی اطبا کرتے رہے؛ چنانچہ ابن اثال نصرانی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کاخصوصی طبیب اور سرجون ان کا منشی تھا۔ مروان نے اثناسیوس اور اسحق کو مصر میں ایک سرکاری منصب دیا تھا۔ مشہور طبیب جرجیس بن بخت یشوع خلیفہ منصور کا بہت مقرب تھا۔ سلمویہ بن بنان نصرانی معتصم کا طبیب تھا، بخت یشوع بن جبرائیل متوکل کا طبیب تھا۔“(۱۷)

”اسلامی تاریخ میں بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ وزارت اور اہم عہدے غیرمسلموں کو دیے گئے۔ عباسی دور میں متعدد عیسائیوں نے وزیر کا عہدہ سنبھالا مثلا : نصربن ہارون اور عیسی بن قسطورس۔ سیوطی فرماتے ہیں کہ ” ابوسعد تستری یہودی(مصرمیں) عبیدی سلطنت کا روح رواں تھا۔“ کسی شاعر نے یہودیوں کے حکومت میں اس عمل دخل کو دیکھ کرکہا:

یھود ھذا الزمان قدبلغوا                 غایة آمالھم وقد ملکوا

المجد فیھم والمال عندھم               ومنھم المستشار والملک

یا أھل مصرإنی نصحت لکم                   تھودوا، فقد تھود الفلک

ترجمہ: اس زمانے کے یہودیوں کی آرزوبرآئی، اور وہ حکمراں بن گئے، ان کو عزت بھی حاصل ہے اورمال بھی ، مشیرکار بھی ان میں کا ہے اور بادشاہ یہودی بن چکا ہے۔“(۱۸)

”نیز شعرا کو( خواہ وہ کسی مذہب اور عقیدے کو ماننے والے ہوتے ) امرا اور خلفا کے یہاں تقرب حاصل ہوتا تھا، اموی دربار میں اخطل کوجو مقام ومرتبہ حاصل تھا سب جانتے ہیں ، وہ عبدالملک کے دربار میں بغیراجازت لیے ہوئے داخل ہوتا تھا، اس کے جسم پر ریشم کی عباء ہوتی تھی ، اور گردن میں سونے کی زنجیر میں بندھی ہوئی صلیب لٹکتی رہتی تھی اور ڈاڑھی سے شراب کے قطرے ٹپکتے رہتے تھے۔

خلفا کے دربار میں علمی وادبی مجالس بھی لگتی تھیں، جن میں مختلف ادیان ومذاہب کے علما شریک ہوتے تھے، اسی قسم کی ایک مجلس مامون کے دربار میں لگتی تھی وہ اس میں شریک ہونے والے علما سے کہتے کہ کسی بھی علمی موضوع پر تبادلئہ خیال کرو؛ لیکن کوئی شخص اپنی مذہبی کتاب سے دلیل نہ پیش کرے کہ فرقہ واریت کے مسائل کھڑے ہوں۔

عوام میں بھی اس قسم کی علمی مجالس لگتی تھیں، خلف بن مثنی فرماتے ہیں: میں نے بصرہ میں دس ایسے لوگوں کو دیکھا جن کی علم وفضل میں مثال ملنی مشکل ہے، یہ سب ایک مجلس میں شریک ہوتے تھے۔شرکائے مجلس خلیل بن احمد نحوی (سنی)، شاعر حمیری (شیعہ)، صالح بن عبدالقدوس( ملحد)، سفیان بن مجاشع (خارجی)،بشاربن برد( رند مشرب)، حماد عجرد(ملحد) ، ابن رأس الجالوت (یہودی)، ابن نظیر متکلم (عیسائی)، عمربن موید( مجوسی)، ابن سنان حرانی شاعر( صابی)تھے، یہ سب ایک مجلس میں جمع ہوتے ، اشعار پڑھتے ، واقعات نقل کرتے اور پیارومحبت کے ماحول میں تبادلہٴ خیال کرتے تھے ، پتا نہیں چلتاتھا کہ ان میں مذہبی اور فکری اعتبار سے اس قدر سخت اختلاف ہے۔

مذہبی رواداری کا ایک نمونہ یہ بھی تھا کہ دیگرمذاہب والے اپنے تہوار پوری آزادی کے ساتھ مناتے تھے، اموی دور سے ہی عیسائی اپنے عام جلوس سڑکوں پر نکالتے تھے، ان کے آگے آگے صلیبیں ہوتیں اور مذہبی پیشوا اپنے مخصوص مذہبی لباس زیب تن کیے ہوتے۔

بطریق میخائیل ایک شاندار جلوس کے ساتھ اسکندریہ میں داخل ہوا، اس کے آگے لوگ موم بتیاں، صلیبیں اور اناجیل لیے ہوئے تھے۔ پادری نعرہ لگارہے تھے کہ رب نے ہمارے لیے مرقس جدید کی شکل میں نیا راعی بھیج دیا ہے۔ یہ ہشام بن عبدالملک کے دورکا واقعہ ہے۔“(۱۹)

خلاصہ

اسلام تمام انسانوں کی ایک اصل مانتاہے، قرآن کریم میں متعدد جگہ انسانوں کے مشترکہ اوصاف ذکر کیے گئے ہیں؛ تاکہ وہ بحیثیت انسان دوسرے کو قبول کریں اورایک دوسرے کے قریب آئیں۔ وہ انسان کا بھر پور احترام کرتاہے، ان کے فکری واعتقادی اختلاف کو اللہ کی سنت اور مشیت قرار دیتاہے ۔ اسلام میں دوسروں کواپنا مذہب قبول کرنے پر مجبور کرنے کی قطعا اجازت نہیں؛اس لیے وہ اپنے قائم کردہ سماج میں دوسرے مذہب والوں کو شہری حقوق، مذہبی آزادی اورعہدے ومناصب دیتاہے۔ اسلامی تاریخ کے ہر دور میں یہ رواداری ملتی ہے؛ اس لیے کہا جاسکتاہے کہ اسلا م کا قائم کردہ تکثیری سماج بے مثال ہے۔

$$$

حواشی

( ۱۵)                نحن والآخر از ڈاکٹر علی محی الدین ص:۹۴۔

(۱۶)                نحن والآخر ص:۱۱۴۔

(۱۷)               من روائع حضارتنا از ڈاکٹر مصطفی سباعی ص:۱۳۴۔۱۴۰۔

(۱۸)                نحن والآخرص:۹۴۔

 (۱۹)                 من روائع حضارتنا ص:۱۴۰۔۱۴۴۔

———————————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5-6، جلد:101 ‏،شعبان۔رمضان 1438 ہجری مطابق مئی۔جون 2017ء

Related Posts