مولانا محمد اللہ قاسمی        

شعبہٴ انٹرنیٹ، دارالعلوم دیوبند

پوری دنیا ظہورِاسلام سے قبل سماجی سطح پر مختلف ناہمواریوں کا شکار تھی۔ کہیں نسلی منافرت اور طبقاتی کش مکش جاری تھی تو کہیں مرد و عورت کے درمیان تشدد اور افراط و تفریط پائی جاتی تھی۔ صنفِ نازک پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹتے تھے۔ انسان خود انسانوں کے بنائے ہوئے غیر متوازن نظاموں میں جکڑا ہوا تھا۔ عام انسانوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی کوئی قیمت نہیں تھی۔ انسان کو انسان شمار نہیں کیا جاتا تھا، عام انسان غلامی اور ظلم کی زنجیروں میں اس طرح جکڑے ہوئے تھے کہ جانوروں کی طرح مجبورِ محض تھے۔

انسانی برادری میں مساوات

اسلام نے سب سے پہلے انسانوں کے درمیان بنی ہوئی اس عدمِ مساوات اور ظلم کی دیوار کو پاش پاش کیا۔ انسانی معاشرے کے درمیان مساوات اور انسانی حقوق میں سب کی شرکت اسلام کا ایک اہم انقلابی تصور تھا، جس نے دنیا کی تصویر بدل ڈالی۔ اسلام سے پہلے کے معاشروں اور تہذیبوں میں جملہ انسانی طبقات کے درمیان مساوات کا فقدان تھا۔

یہود خود کو اللہ کی اولاد اور اشرفُ الناس سمجھتے تھے؛ جب کہ دوسروں کو پیدائشی ذلیل اور حقیر سمجھتے تھے۔ ان کی مذہبی کتاب ’تلمود‘ کے مطابق یہودی روئے زمین کی سب سے بہتر مخلوق تھے اور دیگر انسانی طبقے خود یہودی نہیں ہوسکتے تھے اور کسی صورت میں ان کے برابر نہیں ہوسکتے تھے۔ اس وقت کی سپر پاور طاقت رومن امپائر نے سماج کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا: (۱) امراء جنھیں بغاوت کے علاوہ کسی جرم میں سزائے موت نہیں دی جاسکتی تھی۔ (۲) متوسط طبقہ جسے غیر معمولی جرم میں سزائے موت دی جاسکتی ہے۔ (۳) نچلا طبقہ جس کے افراد کو معمولی جرائم میں قتل کردیا جاتا تھا، زندہ آگ میں جھونک دیا جاتا تھا۔ ایران والے اپنی قومیت کو عظمت و تقدیس کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کا تصور تھا کہ دنیا کی ہر قوم اور ہر نسل پر انھیں برتری حاصل ہے۔ یہ اپنے گرد و پیش کی قوموں کو بڑی حقارت و ذلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کے لیے ایسے نام تجویز کررکھے تھے، جس میں توہین و تمسخر کا پہلو پایا جاتا تھا۔

ہندوستان میں بھی طبقہ واری امتیاز عروج پر تھا۔ ہندی سماج نے باضابطہ ’منوشاستر ‘، جیسا قانونچہ مرتب کر رکھا تھا، جس کو بہت جلد ملکی قانون اور مذہبی دستاویز کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ منو شاستر کے مطابق برہمن ، برہما (خدا ) کے سر سے پیدا ہوے تھے؛ اس لیے مذہبی پیشوائی اور رہبری ان کا فرض منصبی تھا۔ پھر چھتریوں کا درجہ تھا جو برہما کے سینے سے پیدا ہوے اور اُن کے ذمہ لڑائی اور دفاع کا کام سپرد ہوا۔ تیسرے نمبر پر ویش طبقہ تھا اس کا پیشہ زراعت و تجارت تھا اور یہ برہما کے کمر سے پیدا ہوے تھے۔ سب سے ذلیل شودر تھے جو برہما کے پاؤں سے پیدا ہوئے تھے اور جن کے ذمہ درج بالا تینوں قوموں کی خدمت کا کام سپرد ہو ا تھا۔

خود عرب میں قبائلی تعصب اور جتھ بندی بڑی سخت تھی۔ اس عصبیت کی وجہ جاہلی مزاج تھا۔ بعض خاندان دوسرے خاندانوں کے ساتھ رسوم و عادات میں شرکت پسند نہیں کرتے تھے۔ مناسک حج میں قریش عام حجاج سے الگ تھلگ رہتے۔ ایک طبقہ پیدائشی آقاؤں کا تھا ، ایک طبقہ کم حیثیت لوگوں کا تھا جس سے بیگار لیا جاتا تھا۔

عالمی تاریکی کے اس مہیب ماحول میں مکہ کی سنگلاخ وادیوں سے یہ نوید جانفزا سنائی دی کہ تمام انسان اصل خلقت کے اعتبار سے برابر ہیں۔ اعلان ہوا کہ سارے انسان اللہ کی مخلوق ہیں، سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں، کوئی پیدائشی حقیر اور پیدائشی شریف نہیں: یَا اَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَنِسَآءً․

ترجمہ: اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں دنیا میں پھیلادیں۔ (سورة النساء ۱:۴)

سارے انسان پیدائشی اعتبار سے برابر ہیں۔ ان میں کوئی اونچ نیچ نہیں۔ کوئی پاک یا ناپاک نہیں۔ کالے اور گورے، ہندی اور عربی، آرین اور سامی، ایشیائی اور یورپی، مشرقی اور مغربی سب ایک درجہ کے اور ایک طرح کے حقوق رکھنے والے انسان ہیں۔ نسل و رنگ یا وطن و زبان کی بنا پر ان میں کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی۔ ہاں اسلام نے یہ اعلان کیا کہ اگر بڑائی اور برتری کا کوئی معیار ہے تو وہ صرف تقوی اور پرہیز گاری ہے: یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَاُنْثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقَاکُمْ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ․

ترجمہ: ”اے لوگو! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے؛ تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان کر سکو۔ درحقیقت ، اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہو۔ یقین رکھو اللہ سب کچھ جاننے والا اور ہر چیز سے باخبر ہے۔ “(سورة الحجرات ۱۳:۴۹)

اس آیتِ کریمہ نے مساوات کا یہ عظیم اصول بیان فرمایا ہے کہ کسی کی عزت و شرافت کا معیار اس کی قوم، اس کا قبیلہ یا وطن نہیں ہے؛ بلکہ تقوی ہے۔ سب لوگ ایک مرد و عورت یعنی حضرت آدم و حوا (علیہما السلام) سے پیدا ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی نے مختلف قبیلے خاندان یا قومیں اس لیے نہیں بنائیں کہ وہ ایک دوسرے پر اپنی بڑائی جتائیں؛ بلکہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ بے شمار انسانوں میں باہمی پہچان کے لیے کچھ تقسیم ہوجائے۔اسلام نے ساری انسانیت کی عزت افزائی کی اور بلا تفریق نسل و نسب انسان کو ’تکریم ‘ کاتاج عطا کیا۔ ارشاد ہوا: وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ وَحَمَلْنَاھُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاھُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا․

ترجمہ: اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ہے اور انھیں خشکی اور سمندر دونوں میں سواریاں مہیا کی ہیں اور ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ہے۔ (سورة الاسراء ۷۰: ۱۷)

قرآن کی اس آواز پر عربوں کی موروثی نخوت پارہ پارہ ہوگئی۔ پھر عرب کے جنگ جو اور اکھڑ مزاج لوگ باہم شیر و شکر کی طرح گھل مل گئے۔ ان کا سارا نسلی غرور جاتا رہا۔ آگے چل کر انھوں نے مدینہ منورہ میں تاریخی مواخاة (بھائی چارہ ) قائم کیا جو انسانی تاریخ کا ایسا نقشِ جمیل ہے جو رہتی دنیا تک مساوات و اخوت کے علمبرداروں کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھے گا۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے انسانوں کو اللہ کا کنبہ قرار دیا (الخَلْقُ عیالُ اللہ: بیہقی، شعب الایمان، حدیث ۴۹۲۱) اور حجة الوداع کے موقع پر ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ کی موجودگی میں آپ نے اعلان فرمایا: لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارے باپ بھی ایک ہیں۔ سن لو! کسی عربی کو کسی غیر عربی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی غیر عربی کسی عربی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر یا کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت ہے۔ اگر فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقوی اور اللہ کا خوف ہے، اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت اور افضل وہ ہے جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔ (بیہقی، شعب الایمان، حدیث ۴۹۲۱)

انسانی برادری میں مساوات اور عالمگیر اخوت کا نعرہ اسلام نے دیا اور اس کو عملی شکل میں دنیا میں رائج کیا۔ یہی وجہ تھی پوری اسلامی تاریخ میں آزادکردہ غلاموں نے جو علمی و فکری کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں،وہ صرف مسلمانوں کا ہی حصہ ہیں۔ آج جس جمہوریت اور مساوات کا دنیا میں ڈنکا بج رہا ہے وہ سراسر اس ماحول کی دین ہے، جسے اسلام نے دنیا میں پیدا کیا۔ مغربی ممالک کے یہاں طبقاتی اور نسلی تفریق بیسویں صدی تک موجودتھی اور وہ اس سے آزاد نہ ہوپائے۔ ساؤتھ افریقہ میں تو یہ تفریق جو اہلِ یورپ کی طرف سے مسلط کی گئی تھی،۱۹۹۴ء تک موجود تھی اور آج بھی اس کے آثار و شواہد باقی ہیں، جنھیں دیکھ کر انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ امریکہ جو جمہوریت و مساوات کا علمبردار ہے، وہاں کی بعض ریاستوں میں آج بھی نسلی امتیاز پر مبنی قوانین موجود ہیں اور شہریت کے مختلف درجات ہیں اور اسی اعتبار سے ان کو رعایتیں اور سہولتیں دی جاتی ہیں۔ بعض ریاستوں میں اب بھی گوری اور کالی نسل کے لوگوں کے درمیان شادی نہیں ہوسکتی، اگر کرلی جائے تو یہ شادی غیر معتبر ہوگی اور اس کا ارتکاب کرنے والے سزاؤں کے مستحق ہوتے ہیں۔ امریکہ میں نسلی امتیاز کا خاتمہ قانونی طور پر صرف ۱۹۶۵ء میں ہوسکا ۔ اسی طرح امریکہ نے اپنی تمام تر روشن خیالی کے باوجود اپنی پوری دو سو سالہ تاریخ میں پہلی بار کسی سیاہ فام کو صدر کی حیثیت سے قبول کیا تھا اور اب تک اس عہدہ پر کوئی عورت فائز نہیں ہوسکی۔ اسی نسلی امتیاز و تفریق کا نتیجہ ہے کہ امریکہ میں سیاہ فام نسل کی آبادی کے لحاظ سے حکومت کے اہم عہدوں اور ملازمتوں میں ان کا تناسب نہایت ہی کم ہے۔

آج سے چودہ سو سال قبل عرب میں اسلام کی زیر سرپرستی جس عالمی برادری کی تشکیل ہوئی، تب سے آج تک ہر دور اور ہر خطے میں اس عالم گیر اخوت اور مساوات انسانی کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ مغرب ہزار علم و فن اور تہذیب و تمدن کے بلند بانگ دعووں کے باوجود دلوں سے نسلی امتیاز ختم کرنے میں بری طرح ناکام رہا؛ لیکن اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام نے ایک مختصر مدت میں اس برائی کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا۔

عورتوں کے ساتھ انصاف

معاشرتی سطح پر اسلام کا دوسرا اہم کارنامہ عورتوں کو ان کا جائز حق دلانا اور معاشرے میں ان کے صحیح کردار کو بحال کرنا ہے۔ ظہور اسلام سے قبل عورتیں معاشرے میں زبوں حالی کا شکار تھیں ۔ انسانوں کے خودساختہ اصولوں نے ہمیشہ اس کے ساتھ بے اعتدالیاں برتیں۔ عرب کے جاہلی معاشرے میں عورت کے ساتھ عمومی بدسلوکی روا رکھی جاتی تھی اور اس کے حقوق پامال کیے جاتے تھے۔ وہ اقرباء و اعزہ کے ترکہ کی حق دار تو کجا ، سامان و حیوان کی طرح وراثت میں منتقل ہوتی تھی۔ ہندوستان میں عورتوں کا برا حال تھا۔ بیوہ مستحقِ طعن و تشنیع سمجھی جاتی اور عموماً شوہر کے ساتھ ستی ہونے پر مجبور کی جاتی۔ یونانی تمدن میں بھی صنفِ نازک قانونی، اخلاقی، معاشی اور معاشرتی حقوق سے محروم تھی۔ رومن تہذیب میں عورت زمرہٴ انسانیت سے خارج تصور کی جاتی تھی۔ ان کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کیا جاتا تھا۔ انگلستان میں کمزور اور بدصورت لڑکیاں سرِدار چڑھادی جاتی تھیں۔ ایران میں عورتوں کو باعثِ شرم و ندامت سمجھا جاتا تھا۔ الغرض! ایک ظالمانہ ماحول تھا، صنفِ نازک ظلم و ستم کے بوجھ تلے کراہ رہی تھی، ہر جگہ اس کے اخلاقی و معاشرتی حقوق پامال کیے جاتے تھے۔

ایسے وقت میں اسلام نے انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور عورتوں کو ان کا فطری اور قدرتی حق دلایا۔ قرآن کا اعلان ہوا: عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(عورتوں کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو۔ سورة النساء ۱۹:۴) وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ (اور عورتوں کو معروف طریقے کے مطابق وہی حقوق حاصل ہیں، جیسے مردوں کو ان پر حاصل ہیں۔ سورة البقرة ۲۲۸:۲)

اسلام کی یہی انقلاب انگیز پکار تھی جس نے اقوامِ عالم کو احساس دلایا کہ کسی مخلوق کے ساتھ ظلم سراسر ناجائز ہے۔ اسلام نے عورت کی عزت افزائی کی۔ایک عورت کے بحیثیت ماں، بیوی، بہن اور بیٹی کے حقوق مقرر کیے ۔ ماں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید باپ کے مقابلے میں زیادہ کی گئی (صحیح بخاری ، کتاب الادب، حدیث : ۵۵۱۴) نیک بیوی کو دنیا کے سب سے بہتر سرمایہ سے تعبیر کیا گیا (صحیح مسلم، کتاب الرضاع، حدیث: ۲۶۶۸)۔ بیٹیوں اور بہنوں کی تعلیم و تربیت پر جنت کی بشارت دی گئی(سنن ابی داؤد ، کتاب الادب ، حدیث : ۴۴۸۱) ۔ بالترتیب والد، بھائی اور شوہر کو عورت کے نان و نفقہ کی ذمہ داری سونپی گئی اور اس کے باجود انھیں جائداد میں حصہ دار مقرر کیا گیا ( سورة النساء ۷:۴) ۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسانوں میں سب سے بہتر وہ ولوگ ہیں جو عورتوں کے ساتھ بھلائی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ (سنن الترمذی، کتاب الرضاع، حدیث: ۱۰۸۲)

حجة الوداع کے تاریخی خطبہ میں جو حقوقِ انسانی کا عظیم الشان منشور سنا یا، اس میں عورتوں کے حقوق کا خصوصی ذکر فرماتے ہوئے ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید فرمائی اور ان کے حقوق کی یاددہانی کرائی (سنن الترمذی، کتاب الرضاع، حدیث: ۱۰۸۳) حتی کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے قبل اپنی آخری وصیت میں بھی عورتوں کے حقوق کی مکمل ادائیگی کی طرف خصوصی توجہ دلائی ۔(مصنف عبد الرزاق ۴۳۶:۵)

اسلام کی اسی روشنی میں غیر اسلامی ممالک میں بھی عورتوں کے حقوق نے ترقی کی؛ مگر صحیح ربانی تعلیمات کے فقدان اور مذہب بیزاری کی وجہ مغربی تہذیب نے اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ مغرب کے کوتاہ نظرنام نہاد دانشوروں نے عورتوں کو ان کے مقام سے زیادہ اوپر اٹھا کر ایک بار پھر انھیں ظلم و ستم کا نشانہ بنا دیا ہے۔ مساوات اور آزادیٴ نسواں کے پردے میں ان کے ساتھ فراڈ کیا جارہا ہے ۔ ڈھنڈورا یہ پیٹا کہ عورتوں کو مردوں کے دوش بدوش لانا ہے؛ مگر عملاً یہ ہوا کہ انھیں منظرِ عام پر بازار کا سودا بنادیا گیا۔

مرد و عورت کے باہمی تعلق کی نوعیت

عورت انسانی تاریخ کی وہ مظلوم ہستی ہے جس کے تخلیقی ، نفسیاتی اور فطری تقاضوں کی بنیاد پر صحیح حقوق اور ذمہ داریاں انھیں سونپی گئیں۔ عورت کے حقوق و فرائض اور مرد کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت کے سلسلے میں دنیا میں انسان کے خود ساختہ نظریات ہمیشہ افراط یا تفریط کا نشانہ بنے رہے اور اس کے نتیجہ میں بیچاری عورت ذات گھٹ گھٹ کر زندگی گزارتی رہی۔

اسلام سے پہلے عورت اور مرد کے باہمی رشتے میں بڑی بے ہنگمی تھی۔ ساری دنیا فطرت کے خلاف افراط و تفریط کے راستے پر گامزن تھی۔ کوئی مستحکم نظام نہیں تھا، جس کی بنیاد پر ازدواجی رشتہ قائم ہو۔ ایرانی قانون و معاشرت میں ازدواجی تعلقات کے لیے کسی بھی رشتے کا استثناء نہ تھا۔ ایران کے اس شدید شہوانی رجحان کا ایک غیر فطری اور سخت رد عمل یہ ظاہر ہوا کہ ایک حکم راں مانی نے مرد و عورت کا باہمی اجتماع حرام قرار دے دیا۔ پھر مزدک نے تمام عورتوں کو تمام مردوں کے لیے حلال کردیا، جس سے پورا ایران جنسی انارکی اور شہوانی بحران میں ڈوب گیا۔ ہندوستانی مذہب و تمدن میں شہوانی جذبات اور جنسی میلان کو ابھارنے والے عناصر چھائے ہوئے تھے۔ معبودوں کی فہرست میں لنگم اور یونی (مرد اور عورت کی شرم گاہ ) بھی اہمیت کے ساتھ شامل تھے ۔ اس تن پرستی اور نفس پروری کے بالمقابل دوسری طرف نفس کُشی اور ریاضت و مجاہدہ (جوگ و تپشیا) کا سلسلہ جاری تھا۔ خود عرب میں زنا کوئی معیوب بات نہیں تھی اور اس کے بہت سے طریقے رائج تھے۔ غرض دنیا شہوت و تجرد کے دونوں سروں میں تقسیم اور اعتدال و توازن سے محروم تھی۔ کچھ افراد نفس کشی اور روحانی ترقی میں مصروف تھے اور عام آبادی شہوانیت اور نفس پرستی کے دھارے میں بہہ رہی تھی۔ ایسے ماحول میں اسلام نے انسانی فطرت کے عین مطابق معاشرتی لائحہٴ عمل پیش کیا جس میں بھرپور طریقہ پر انسان کے شہوانی جذبات کی رعایت کے ساتھ اخلاقی و سماجی اقدار پیش کیے گئے۔ اس میں ہر اعتبار سے اعتدال تھا، توازن تھا، جاذبیت تھی اور فطرتِ انسانی سے مکمل مطابقت بھی۔

اسلام کی نگاہ میں مرد و عورت انسانی سماج کے دولازمی جز ہیں۔ اسلام نے مردوں اور عورتوں سے متعلق نہایت متوازن قانون دیا ہے۔ انسانی حقوق میں مردوں اور عورتوں کو مساوی درجہ دیا گیا ہے اور سماجی زندگی میں دونوں کے جسمانی تقاضوں اور صلاحیتیوں کے لحاظ سے فرق کیا گیا ہے؛ بال بچوں کی تربیت کی ذمہ داری عورتوں پر اور کسب معاش کی ذمہ داری مردوں پر رکھی گئی ہے۔ سماجی زندگی کا یہ نہایت ہی زریں اصول ہے جس میں خاندانی نظام کی بقا اور اخلاقی اقدار کی حفاظت اور عورت کو ناقابلِ برداشت مصائب سے بچانا ہے۔

دوسری طرف دنیا میں کچھ ایسے قوانین وضع کیے گئے جن میں عورت کی حیثیت جانور اور پراپرٹی جیسی قرار پائی، نہ وہ کسی جائداد کی مالک ہوسکتی تھی ، نہ اس میں تصرف کرسکتی تھی، نہ اس کو اپنے مال پر اختیار حاصل تھا اور نہ اپنی جان پر۔ اس کے مقابل آج کے مغربی معاشرے نے عورتوں کو تمام ذمہ داریوں میں مردوں کے مساوی قرار دے دیا۔ عورتوں کی جسمانی کمزوری، ان کے ساتھ پیش آنے والے قدرتی حالات و عوارض، اور طبیعت و مزاج اور قوتِ فیصلہ پر ان کے اثرات کو نظر انداز کردیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہ ظاہر تو عورت کی حمایت سمجھا گیا؛لیکن انجام کار اس آزادی نے پورے سماج کو بے حیائی، اخلاقی انارکی، ناقابلِ علاج امراض اور خود عورتوں کو ناقابلِ تحمل فرائض میں جکڑ کررکھ دیا۔

اسلام میں سماج کی اہمیت

اسلام نے جس طرح فرد کی زندگی کو اہمیت دی ہے، اسے آزادی، مساوات اور عدل و انصاف سے نوازا ہے، وہیں اس نے اس کو معاشرے سے الگ بھی تصور نہیں کیا ہے۔ اسلام نے فرد کے مفادات اور حقوق کے خیال کے ساتھ ، اس کو وسیع ترین معاشرے کے ایک ذمہ دار رکن کی حیثیت سے فرائض و واجبات بھی دیے ہیں۔ مغربی نظام کے برخلاف ، اسلام کے معاشرتی نظام میں صالح اجتماعیت اور معاشرہ کا تحفظ و بقا فرد کے تحفظ و بقا کے مقابلے میں کہیں زیادہ ضروری ہے۔ اسلام نے ایسے صالح معاشرہ کی تشکیل کا خاکہ پیش کیا ہے اور اس کو عملی جامہ پہنایا ہے، جس میں خیر اور نیکی کو خوب پنپنے کا موقع ملے اور شر و برائی کو سر اٹھانے کا موقع نہ ملے۔

 اسلام کا عمومی حکم ہے کہ معاشرے میں بھلائی اور خدا ترسی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کی جائے اور گناہ و ظلم کے کاموں میں کسی قسم کی کوئی مدد نہ کی جائے۔ ( سورة المائدة ۲:۵) بلکہ مستقل طور پر ایک دوسرے کو نیکی کی تلقین کرتے رہنے اور برائیوں سے روکنے کی ہمت افزائی کی گئی ۔(سورة التوبة ۷۱:۹) نیز، حدیث میں حکم ہوا کہ تم میں جو شخص برائی دیکھے اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے، اگر اس پر قادر نہ ہو تو زبان سے ، اور اگر اس پر بھی قادر نہ ہو تو دل سے اس کو برا سمجھے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ (صحیح مسلم ، جلد اول ، کتاب الایمان)

اسلام نے ان تمام سرچشموں کو بند کردیا ہے جن سے صنفی برائیاں معاشرہ میں پھیلتی ہیں۔ شرم و حیا کی سخت تاکید کی گئی اور اسے ایمان کا جز قرار دیا گیا۔ (الحیاءُ شعبةٌ مِنَ الایمانِ ، صحیح بخاری جلد اول باب امور الایمان)مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم ہوا کہ جب ان کی نظر مقابل صنف پر پڑے تو اپنی نظریں نیچی کرلیں۔ (سورة النور ۳۱-۳۰)

زنا کو بدترین برائیوں میں شمار کیا گیا اور اس کے خلاف معاشرے میں شدید ترین نفرت و حقارت کے جذبات پیدا کردیے گئے اور زنا کے مرتکب افراد کے لیے نہایت سخت سزاؤں کا اعلان کیا گیا۔ (دیکھیے قرآن کریم ۳۲:۱۷ و ۳:۲۴) مردوں اور عورتوں کا آزادانہ میل جول سخت ممنوع قرار دیا گیا۔ عام حالات میں عورتوں کا دائرہٴ کار گھر کی چہاردیواری تک محدود کردیا گیا اور انھیں بلا ضرورت باہر نکلنے سے روک دیا گیا۔ (وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیة الاولی: سورة الاحزاب ۳۳:۳۳)

اسلام نے نکاح کوآسان بنایا اور اس کی خاص تاکید و ترغیب دی۔بہت ہی قریب کے چند رشتوں کوچھوڑ کر باقی تمام لوگوں سے نکاح جائز قرار دیا گیا۔ اسی طرح ذات پات اور طبقاتی فرق بھی نکاح میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ جوانوں کو مجرد رہنے کو خاص طور پر ناپسند کیا گیا۔ بیوہ عورتوں اور رنڈووں کو پھر سے ازدواجی زندگی اختیار کرلینے کی ہدایت کی گئی۔ اسلام کا حکم ہے کہ لڑکی جب جوانی کی عمر کو پہنچ جائے اور اس کے لیے مناسب رشتہ میسرآجائے تو فوراً اس کا نکاح کردو!

اسلام نے فرد کی آزادی، حقوق اور احترامِ نفس کو نہ صرف قبول کیا؛ بلکہ اسے بڑھاوا دیا؛ لیکن ساتھ ہی معاشرے کو فرد سے زیادہ اہمیت دی؛ اسی لیے فرد کو ایسے کاموں کی اجازت نہیں دی گئی جس سے معاشرے کے مجموعی اخلاقی و فکری ماحول میں کوئی منفی اثر پیدا ہوتا ہو۔ انھیں اسباب کی بنیاد پر اسلام نے زنا، بے حیائی، بے پردگی اور اخلاق باختگی کو کسی صورت میں برداشت نہیں کیا ہے؛ جب کہ اس کے بالمقابل آج کے مغربی معاشرہ میں فرد کو مرکزیت و اہمیت دینے کی روش سے سماج کو بے شمار اخلاقی و سماجی برائیوں سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ معاشرہ میں فرد کو ہی اہمیت دینے کا معاملہ ہے کہ مغربی معاشروں میں فرد کو لباس، رہن سہن اور من مانے طرزِ زندگی کو اختیار کرنے میں پوری آزادی دے دی گئی ہے۔ بے پردگی تو کجا، رضا مندی کے ساتھ زناحتی کہ شادی شدہ افراد کا زنا کرناکوئی جرم نہیں ہے۔ اسی فردکی آزادی کا کرشمہ ہے کہ ہم جنسی اور غیر فطری شادیاں جائز گردانی جارہی ہیں اور حتی کہ قتل وغیرہ جیسے سخت ترین جرائم کی سزا کے طور پر ملکی قانون میں قتل بالنفس کا کوئی خانہ نہیں ہے۔

غرض اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد کے ادوار میں انسانی حقوق، انسانی اخوت و مساوات اور معاشرتی اصلاحات کا اگر جائزہ لیا جائے واضح طور پر محسوس ہوگا کہ اسلام کی بادِ بہاری نے اس گلشنِ عالم کو کس طرح اپنی عطر بیز سماجی تعلیمات و اصلاحات کے ذریعہ معطر و منور کیا اور اس اسلامی انقلاب کی بدولت کس طرح نسل انسانی کو احترامِ نفس، مساوات اور آزادی کی بے بہا دولت ہاتھ آئی۔ اسلامی انقلاب کے زیر اثر تاریخ میں جہاں بھی یہ معاشرتی نظام قائم رہا، وہاں معاشرہ امن و سکون اور روحانیت و اخلاق کی روشنی سے جگمگاتا رہا۔ آج مغرب کی نام نہاد تہذیب نے صالح معاشرے کے اس ڈھانچہ کو بری طرح متاثر کرنا شروع کردیا ہے جس کے نتیجہ میں انسانی معاشرہ ایک بار پھر انھیں تاریک ادوار میں واپس جارہا ہے، جہاں صرف نفس و شیطان کی حکمرانی تھی؛ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو ربانی ہدایات کے مطابق ڈھالیں؛ تاکہ پھر وہی خالص اخلاقی و روحانی سکون ہمیں حاصل ہوسکے۔

$$$

——————————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2، جلد:101 ‏، ربیع الآخر۔جمادی الاولی 1438 ہجری مطابق جنوری۔فروری 2017ء

Related Posts