از:مولانا رفیع الدین حنیف قاسمی

وادی مصطفی شاین نگر، حیدرآباد

کھانے پینے کی اشیاء کے تعلق سے اس فراوانی اور بہتا ت کے دور میں اس کی ناقدری اور بے حرمتی ایک عام سی بات ہوگئی، بچے ہوئی کھانے کو محفوظ رکھ کر اس کے استعمال کو معیوب گردانا جاتا ہے؛ بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ مغرب کی اندھی تقلید نے جہاں اقدار کے بہت سارے پیمانے بدل دیے ہیں ، اسی طرح کھانے کے بچانے اور اس کے پلیٹ میں رکھ چھوڑنے کو ایک مہذب عمل سمجھاجاتا ہے اور پلیٹ کی مکمل صفائی اور پلیٹ کے بقیہ ریزوں کے استعمال اور اس کے کھالینے کو حقیر تر باور کیا جاتا ہے اور خصوصاً شادی بیاہ کے موقع سے اسراف وفضول خرچی کے وہ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں اور رزق کی بے حرمتی کے وہ مناظر نگاہوں سے گذرتے ہیں کہ الامان والحفیظ، اسراف وفضول خرچی کا ایک طومار ہوتا ہے ، مختلف کھانوں کی ڈشش نے تقاریب کے موقع سے رزق کی ناقدری کو بڑھاوا دیا ہے ، مختلف نوع کے کھانے اور ہر ایک سے کچھ چکھ لینے کی نیت نہ جانے کس قدر رزق کی بے حرمتی اور اس کی ناقدری کی وجہ بنتی ہے ، اگر ہم یہ اراد کرلیں کہ ہم رزق کی قدر کریں گے تو کتنے غریبوں کی بھوک علاج اور ان کے فاقوں کا مداوا ہوسکتا ہے ، اور کتنے نانِ شبینہ کے محتاج اور سسکتے بلکتے اور فاقہ زدہ گھرانوں کی خوشیاں عود کر آسکتی ہے ، انانیت اور شہرت اور جاہ کی طلب نے بالکل اندھا کردیا ہے ، سوائے اپنے انا کی تسکین کے ہمیں کچھ دکھائی نہیں دیتا، لوگوں میں اپنی شان جتانے اور صرف ناک اونچی کرنے کی خاطر ہمیں زرق کی ناقدر ی اور بے حرمتی منظور ہے اور اللہ کے غضب کو دعوت دینا منظور ہے؛ لیکن اپنی شان نہ جائے ، شخصیت پر آنچ نہ آئے۔

میری نگاہوں سے رزق کی قدر دانی کے تعلق سے دو واقعات گذرے انھیں کی روشنی میں اس گناہِ عظیم اور ہمارے معاشرے کے اس عظیم روگ کے تعلق سے نشاندہی کرنا چاہتاہوں ، خدا را ان واقعات کو عبرت کی نگاہ سے پڑھیے ۔

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب ذکر وفکر میں ایک واقعہ ذکر کیا ہے :

ایک مرتبہ میرے والد ماجد حضرت مولانا سید اصغر حسین (جو میاں صاحب کے نام سے مشہور تھے)کے گھر ملاقات کے لیے گئے ، کھانے کا وقت آگیا تو بیٹھک میں دسترخوان بچھا کر کھانا کھایا گیا، کھانے سے فارغ ہونے پر والد صاحب دسترخوان سمیٹنے لگے ؛ تاکہ اسے کہیں جھٹک آئیں، حضرت میاں صاحب نے پوچھا: ”یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ والد صاحب نے عرض کیا: حضرت دسترخون سمیٹ رہا ہوں؛ تاکہ اسے کسی مناسب جگہ پر جھٹک دوں ، میاں صاحب بولے ، کیا آپ کو دسترخوان سمیٹنا آتا ہے ، ؟ والد صاحب نے عرض کیا: کیا یہ بھی کوئی فن ہے؟ میاں صاحب نے جواب دیا : جی ہاں ، یہ بھی ایک فن ہے اور اسی لیے میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ کو یہ کام آتا ہے یا نہیں ، والد صاحب نے درخواست کہ حضرت ! پھر تو یہ فن ہمیں بھی سکھا دیجیے، میاں صاحب نے فرمایاکہ آیئے ! میں آپ کو یہ فن سکھاوٴں ۔یہ کہہ کر انہوں نے دسترخوان پر بچی ہوئی بوٹیاں الگ کیں ، ہڈیوں کو الگ جمع کیا، روٹی کے جو بڑے ٹکڑے بچ گئے تھے ، انھیں چن چن کر الگ اکٹھا کر لیا، پھر فرمایاکہ میں نے ان میں سے ہر چیز کو الگ جگہ مقرر کی ہوئی ہے ، یہ بوٹیاں میں فلاں جگہ اٹھا کر رکھتا ہوں ، وہاں روزانہ بلی آتی ہے اور یہ بوٹیاں کھالیتی ہے ، ان ہڈیوں کی الگ جگہ مقر ر ہے ، کتے کو وہ جگہ معلوم ہے اور وہ وہاں آکر یہ ہڈیاں اٹھا لیتا ہے ،اور روٹی کے یہ ٹکڑے میں فلاں جگہ رکھتا ہوں ، وہاں پرندے آتے ہیں اور یہ ٹکڑے ان کے کام آتے ہیں اور یہ جو روٹی کے بہت چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں یہ میں چیونٹیوں کے کسی بل کے پاس رکھ دیتا ہوں اور یہ ان کی غذا بن جاتی ہے ۔اور پھرفرمایا : یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کا رزق ہیں ، ان کا کوئی حصہ اپنے امکان کی حد تک ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ (مولانا محمدتقی عثمانی ،ذکر وفکر:۴۳)۔

اس وقت پیسوں اور مال ودولت کی فراوانی میں جو ہم رزق کے ضیاع اور بے حرمتی کے نقوش پیش کر رہے ہیں ، کبھی خدانخواستہ احوال زمانہ ہمیں کنگال اور بالکل غریب اور نہتا اور مفلس نہ کردیں۔

ایک عربی ادیب محمد بن عبد العزیز نے رزق کی حرمت اور پاسداری کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے اپنے پڑوسی کو عصر کی نماز کے بعد کوڑے دان کے پاس اس میں سے کچھ لے کر اپنے گھر جاتے دیکھا ، تو اس کو یہ اندیشہ ہوا کہ شاید یہ شخص محتاج اور نادار ہے اور مجھے اس کا پتہ بھی نہیں؛ چنانچہ میں نے اس سے ملاقات اور اس کے احوال کی جانکاری اور کوڑے دان سے اسے کچھ اٹھاتے جو دیکھاتھااس سے متعلق پوچھنے کا ارادہ کیا ، جب میں اس سے ملاقات کے غرض سے اس کے پاس گیا تو وہ بہترین غنی اور مالداری کی حالت میں تھا، میں اس سے کوڑے دان سے کھانے اٹھانے کے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا کہ میں نے کوڑے دان میں کھانے کے قابل کھانے کو پڑا دیکھا تو اس کے پھینکے ہونے سے اچھا نہیں لگا ، میں نے اس کو لینے اور اس کے بجائے اس غلیظ جگہ میں پڑے رہنے کے اس کے اکرام میں بہتری سمجھا۔

اس نے بتایا کہ ایک دفعہ میں فاقہ کی شدید حالت سے گذرا، تب سے میں نے یہ عہد کیا ہے کہ میں کھانے اور زرق کی بے حرمتی نہیں کروں گا، میرے ساتھ قصہ کچھ یوں درپیش ہوا کہ مکہ میں مجھے ایک سال بالکل فاقے گذارنے پڑے ، نہ میرے پاس کوئی پیسہ تھا اور نہ مجھے کوئی کام مل پارہا تھا، میں صبح کام کی تلاش میں نکلتااور رات میں کچھ کام نہ ملتا تو گھر آکر سوجاتا، میری بیوی اور بیٹی روزانہ اس انتظار میں ہوتیں کہ میں کچھ لے آوٴں اور ان کی بھوک کا مداوا کروں ، جب معاملہ حد سے گذرنے لگا اور تین دن فاقہ میں گذر گئے تو میں نے بھوک مٹانے کے خاطر اپنی حسین وجمیل اور اکلوتی بیٹی کو فروخت کرنے کا ارادہ کیا، اس کو بنا سنوار کربازار لے گیا، ایک دیہاتی کی نظر لڑکی پر پڑی ، اس نے لڑکی کودیکھاتو اسے پسند آگئی ، اس نے مجھ سے لڑکی کے تعلق سے بھاوٴ تاوٴ کیا، چاندی کے بارہ ریال پر راضی ہوگیا، جیسے ہی میں نے درہم اس کے ہاتھ سے لیے تو اس کو لے کر کھجور کے بازار کی جانب دوڑ پڑا، پیٹ بھرنے کے خاطر کھجور کی ایک زنبیل دو ریال کے عوض خریدی اور ایک قلی کو اس کے اٹھانے کے لیے خرید لیا، بھوک کی شدت کی وجہ سے مجھے اس کے اٹھانے کی طاقت نہ تھی، میں اس سے پہلے گھر پہنچ گیا، گھر پہنچنے پر پیچھے تو دیکھا تو قلی نظر نہیں آیا، میں اس کی تلاش میں نکل پڑا، پھرمیں نے سوچا: میں بازار جا کر دوسری کھجور خرید لیتا ہوں میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہ بقیہ ریال بھی گم ہوگئے تھے ، مجھ پر بہت زیادہ مایوسی اور غم طاری ہوگیا، میں نے حرم شریف میں جانے کا عزم کیا، جب میں مطاف میں پہنچا تو وہ دیہاتی میری لڑکی کے ساتھ نظر آیا، میرے دل میں خیال آیا کہ جب یہ مکہ سے نکلے گاتو وہاں کسی گھاٹی میں گھات لگا کر اسکا قتل کر کے اس سے اپنی لڑکی کو آزاد کر لوں گا، میں طواف کر رہا تھا تو وہ مجھے نظریں چرا کر دیکھنے لگا اس کی آنکھیں میری آنکھوں سے مل گئیں بتاوٴ یہ لڑکی کون ہے ؟ میں نے کہا : یہ میری باندی ہے ، اس نے کہا : نہیں یہ تیری بیٹی ہے میں نے اس سے پوچھا ہے ، اس لڑکی نے کہا یہ میرے والد ہیں ، اس نے کہا: تم نے ایسا کیوں کیا، میں نے کہا: ہم تین دن سے فاقہ سے تھے ، موت کے اندیشے اور ہم تینوں کی ہلاکت کے خوف سے میں نے ایسا کیا ، پھر میں نے لڑکی کی قیمت اور اس کے گم ہوجانے کے تعلق سے اس کو بتلایا کہ مجھ کو اس رقم سے کوئی نفع نہیں ہوا، تو اس دیہاتی نے کہا: اپنی لڑکی لے لواور آئندہ ایسا نہ کرنا، اس نے ایک تھیلی نکالی جس میں تیس ریال تھے ، اس میں سے تقسیم کر کے آدھے مجھے دیئے۔

میں بہت خوش ہوا ، اس کے لیے اللہ سے دعا کی اور اس کے فضل واحسان پر اس کے گن گائے اور اپنی لڑکی کو لے کر کھجور خریدنے کے لیے بازارگیا تو مجھے وہ قلی نظر آیا ، میں نے اس سے پوچھا: تم کہاں تھے ؟ اس نے کہا: چچاجان آپ تو جلدی جلدی چل رہے تھے ، مجھے تو راستہ ہی نظر نہ آیا، میں نے آپ کے تلاش کی بہت کوشش کی ، تلاش بسیار کے بعد بازار واپس چلاآیا، میں نے کہا: وہ کھجور لے آوٴ، جب ہم واپس ہو کر گھر میں داخل ہوئے اور برتن میں کجھور خالی کرنا چاہاتو وہیں مشک کے نیچے وہ درہم موجود تھے ، میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور مجھے یہ علم ہوگیا کہ ہر تنگی کے بعد آسانی ہوتی ہے، پھر اس وقت سے یہ عزم کیاکہ ہمیشہ اللہ عزوجل کی نعمتوں اور اس کے رزق کی قدردانی کروں گا ، کبھی بھی رزق کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھوں گا اور نہ اسے پھینکوں گا اور نہ کبھی کھانے کو کوڑے دان میں یا گندی میں پڑا رہنے دوں گا۔(القصة القصیرة ودورھا فی نشررسالة الاسلام، الدکتور محمد فضل اللہ شریف)

یہ واقعہ رزق کی قدر دانی کے تعلق سے نہایت عبرت خیز ہے ، رزق کی اہمیت کا اندازہ فاقہ اور بھوک کی شدت میں ہی لگایا جاسکتا ہے؛ اس لیے زرق کی بے حرمتی اور ناقدری سے بچیں، اس کے ذریعہ غریبوں ، مسکینوں ،اوربھوکوں کی بھوک مٹانے کا نظم کریں ، شادی بیاہ ، دعوتوں اور تقاریب کے موقع سے اور ہوٹلوں میں رزق کے ضیاع سے حفاظت کر کے ہزاروں بھوکے لوگوں کے پیٹ بھرے جاسکتے ہیں؛ اس لیے آج ضرورت اس بات کی محض اپنے شان رکھنے کے لیے کھانے کے ضیاع اور اللہ کی نعمت کی ناقدری کرنے والے نہ بنیں، اللہ کی ناراضگی اور اس کی نعمت کی ناقدری کہیں اس کے غضب کے نزول کا سبب نہ بن جائے اور ہم سے بھی اس نعمت کی ناقدری کی وجہ سے وہ نعمت چھن نہ جائے اور ہمیں بھی برے اور بھیانک احوال سے گذرنا نہ پڑے ۔

—————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10، جلد: 99 ‏، ذی الحجہ1436 ہجری مطابق اکتوبر 2015ء

Related Posts