حرفِ آغاز
مولانا حبیب الرحمن اعظمی
۱۸۵۷ہندوستانی سماج اس وقت جس کربناک دور سے گذر رہا ہے، گذشتہ صدیوں میں اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی، تہذیب حاضر کے بطن سے عیش کوشی نے جنم لیا، جس سے سیاسی، اقتصادی وغیرہ خرابیاں پیدا ہوئیں، اقرباپروری نے نسلی امتیاز کو جنم دیا، جس نے ذات پات کی تفریق، علاقائی تعصب اور فرقہ واریت جیسے سنگین اور سلگتے مسائل پیدا کیے، سرکاری سرمایہ کے غبن اور گھوٹالوں کے ذریعہ بڑے سیاسی لوگ دیکھتے دیکھتے ارب پتی، کھرب پتی بن گئے، جو باقی رہ گئے وہ بھی اس بہتے دریا میں غوطہ زنی کے لیے بیتاب ہیں، مفاد پرستی وخود غرضی سیاسی مزاج بن گیا ہے، اقتدار حاصل کرنا اور اس کے لیے جائز وناجائز ہتھکنڈے اختیار کرنا اور کرسی اقتدار سے چپکے رہنے کے لیے جھوٹ، فریب، دھوکہ، ودغابازی گویا ایک فن بن گیا ہے، سیاسی عناصر کی اس بے راہ روی سے عوام کی مایوسی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے اور یہ تاثر عام ہوتا جارہا ہے کہ سماج کی ساری برائیوں کی جڑ سیاستدانوں کی یہی ہوسِ اقتدار ہے، جس نے جرائم اور سیاست کی حدوں کو اس طرح باہم خلط ملط کردیا ہے کہ دونوں کے امتیازات ختم ہوگئے ہیں۔ اس صورتِ حال کے مختلف کرداروں کو تین حصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے:
(۱) یہ گروہ بظاہر سیکولرزم پر یقین رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے؛ جبکہ اس کے طویل دور اقتدار کے عملی مظاہرے اس کی فرقہ نوازی اور مخصوص طبقہ کی بہبود وترقی کے اقدامات، نیز ایک خاص طبقہ کو پیچھے ڈھکیلنے کی روش صبح روشن کی طرح نمایاں ہے، موجودہ نسل کو اس سیاسی قوت کا سب سے بڑا تحفہ، اسکنڈل کی سیاست ہے۔
(۲) یہ گروہ آج کی سب سے بڑی اور اقتدار پر قابض سیاسی طاقت ہے، جو منوسمرتی پر مبنی ذات پات کے نظام کو برقرار رکھنے پر بضد ہے تاکہ عیش کوش طبقہ کو خادموں کی کمی نہ رہے، اس کی سب سے بڑی دین نسلی فسادات اور فرقہ وارانہ منافرت ہے جس کی وجہ سے ملک کے دو بڑے طبقوں میں ناقابل عبور خلیج پیدا ہوگئی ہے، ہندوستان کے قدیم مزاج اہنسا اور رواداری کے برخلاف جارحیت اور تشدد اس کا طرئہ امتیاز ہے۔
(۳) یہ گروہ فرقہ وارانہ رواداری اور قومی یکجہتی پر یقین رکھتاہے، سماجی انصاف اس کا سب سے بڑا نعرہ ہے، یہ گروہ اگرچہ مذکورہ بالا سیاسی طاقتوں سے تعداد اور قوت میں کمتر ہے؛ لیکن بہرحال بے اثر نہیں ہے۔
ان تینوں گروہ کے علاوہ ایک قوت اور بھی ہے، جسے آزادی کیوقت ہی سے حاشیہ پر ڈال دینے کی پالیسی پر عمل جاری ہے؛ مگر بہ چند وجوہ اس کے وجود کا احساس سب کو ہے، یہ گروہ ملکی معاشرہ کو عدل وانصاف اور مساوات واخوت کی بنیادوں پر استوار کرنے کا خواہشمند ہے، یہ مذہب ونسل کے امتیاز کو مٹاکر محبت واخوت کی جہانگیری چاہتا ہے، اس کا نظریہ ہے کہ سارے انسان ایک آدم کی اولاد ہیں، یہ قوت اگرچہ اقلیت میں ہے؛ مگر اس کے نظریہ کی صداقت وجاذبیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے، یہ اسلام کے علمبرداروں کا طبقہ ہے۔
موجودہ صورت ِ حال میں یہ اقلیتی طبقہ کیا ہندوستانی سماج میں صالح انقلاب لانے کی پوزیشن میں ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے اسلام کی آمد سے قبل ہندوستانی سماج پر ایک نظر ڈالنا مناسب ہوگا:
ساتویں صدی عیسوی میں جبکہ عرب تاجروں کے توسط سے اسلام کا پیغام ہندوستان پہنچا، ذات پات کی تفریق کی شکار غیرویدی ذاتوں کی حالت اس وقت کے سماج میں انتہائی خستہ تھی، یہ ذاتیں وہاں نہیں رہ سکتی تھیں جہاں اعلیٰ طبقے کے لوگ رہتے تھے؛ کیونکہ یہ اعلیٰ وبرتر طبقہ ان کے سایہ ہی سے ناپاک ہوجاتا تھا، ان کی حیثیت سماج میں جانوروں سے بھی کمتر تھی، توہم پرستی وتنگ نظری اور شدت پسندی اس وقت ہندوستانی سماج میں اس طرح رچ بس گئی تھی کہ ہندوستانی رواداری ایک قصہ پارینہ بن کر رہ گئی تھی۔
ہندوستانی سماج کی اسی زبوں حالی میں اسلام کا پیغام جبر وجور کی تمازت میں جھلسے ہوئے انسانوں کے لیے سایہٴ رحمت ثابت ہوا، اسلام کی امتیازی شان یہی ہے کہ اس کا پیغام آفاقی اور مساوات واخوت کی بنیادوں پر قائم ہے، خصوصی اختیارات وامتیازات کی اس کے یہاں کوئی گنجائش نہیں، نماز ادا کرنے، روزہ و حج ادا کرنے، قرآن و حدیث پڑھنے میں کسی قسم کی تفریق نہیں، نماز وحج کا عمل اجتماعیت اور انسانی مساوات کا بے نظیر نمونہ ہے، اسلام میں کوئی مذہبی رہنما کوئی اچھا کام کرنے یا کسی عبادت کے بجا لانے سے کسی مرد و عورت کو روک نہیں سکتا ہے، اسلام میں کوئی دیوتا، کوئی خادم، کوئی اشرف یا ارزل نہیں ہے، اس کے نزدیک عزت و شرافت کا مدار نسل وذات پر نہیں؛ بلکہ نیک کردار وصالح اقدار پر ہے۔
اسلام کے یہ اور اسی جیسے دیگر دل کو چھونے والے اوصاف نے مالابار کے راجہ ”چیرامن پیرومل“ کو اپنی جانب متوجہ کیا اور وہ اسلام کے آغوش رحمت میں آگیا، اس کے بعد تو گاؤں کے گاؤں اسلام کی انسانیت نوازی کو دیکھ کر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے، کل تک جن پر عبادت گاہوں کے دروازے بند تھے، انھیں مسجدوں نے اپنی آغوش عزت میں لے لیا اور سب کو باعزت زندگی گذارنے کا اختیار مل گیا، عرضیکہ اسلام کے سچے پیروکاروں نے جہاں جہاں قدم رکھا وہاں وہاں زبردست سماجی انقلاب برپا ہوگیا اور ذات پات کی تفریق ختم ہوگئی، سب آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، ان میں باہمی انسانی رشتے قائم ہوگئے اور لوگ آزاد کھلی فضا میں سانس لینے لگے۔
ہندوستانی سماج کے موجودہ کربناک مسائل کا حل جو کل تھا وہی آج بھی ہے، انسانیت کی فلاح، عالمی مساوات، سماجی انصاف ہی وہ نظریہ ہے جس کو اپناکر انسان کو انسان کی غلامی اور چیرہ دستیوں سے نجات مل سکتی ہے، سماجی انصاف قائم ہوسکتا ہے؛ لہٰذا انسانیت کی نجات کے لیے اسی نظام حیات کو اپنانا ہوگا، اسی سے تفریق کی دیواریں منہدم ہوں گی، کمزوروں کو طاقتوروں کے ظلم سے چھٹکارا ملے گا، ملک وقوم کو فلاح ونجات ملے گی، ملک کے انصاف پسند طبقہ بالخصوص مسلمانوں کو اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے تیار ہوجانا چاہیے، یہی وقت کی آواز ہے، اگر اس آواز کو سنی ان سنی کردیاگیاتو جان لیجیے سماجی نابرابری اور ظلم وتشدد کا یہ عفریت ملک وقوم سب کو نگل جائے گا، حالات اگرچہ سخت ہیں؛ لیکن عزم جواں اور بلندیِ کردار کے آگے یقین جانئے یہ نرم پڑجائیں گے۔
جوانو یہ صدائیں آرہی ہیں آبشاروں سے
چٹانیں چور ہوجائیں جو ہو عزم سفر پیدا
————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ5، جلد: 99 ، رجب 1436 ہجری مطابق مئی 2015ء