اداریہ
حبیب الرحمن اعظمی
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام کے نام لیوا اوراس کے شیدائیوں کے مقابلہ میں اسلام کے مخالفین و معاندین کی تعداد ہر دور اورہر زمانہ میں زیادہ رہی ہے اور اسلام کو اپنے ابتدائے قیام سے آج تک نہ جانے کتنے فتنوں سے دوچار ہونا پڑا ہے، لیکن اس تاریخی شہادت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ علماء اسلام اور صلحاء امت نے ان تمام فتنوں کا نہایت پامردی سے مقابلہ کیا ہے اور اسلام کی حریفوں کو ہر محاذ پر شکست دے کر اسلام کے کارواں کو آگے بڑھایا ہے۔
چنانچہ اسلام پر اوّل ترین حملہ مادیت کی راہ سے ہوا، موروثی حکومت کے تسلسل اور دولت و ثروت کی فراوانی سے اسلامی معاشرہ میں تعیش اور راحت پسندی کا عمومی رجحان پیدا ہوگیاتھا، جس سے یہ خطرہ ہوچلا تھا کہ خدانخواستہ ملتِ اسلامیہ بھی اگلی امتوں کی طرح تعیش کی نذر نہ ہوجائے اس فتنہ کے مقابلہ کیلئے حضراتِ تابعین کی جماعت میدان میں نکل پڑی اور اپنے وعظ و نصیحت دعوت و تبلیغ اور حرارت ایمانی کے ذریعہ مادیت کے اس سیلابِ بلاخیز کو آگے بڑھنے سے روک دیا اور امت کو اس طوفان سے بچالیا۔
اس کے بعد اسلام پر دوسرا حملہ عقلیت کی راہ سے ہوا، یونانی فلسفہ نے سطحی ذہنوں کو اپنی گرفت میں لے کر اسلامی عقائد و اعمال کے خلاف ایک طوفان کھڑا کردیا جس سے متاثر ہوکر امت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک کی قیادت فقہاء اور محدثین کررہے تھے اور دوسرے کی عقلیت زدہ معتزلہ۔ یہ فتنہ چونکہ علمی انداز میں ابھرا تھا اور بدقسمتی سے حکومتِ وقت کی اسے سرپرستی بھی حاصل ہوگئی تھی اس لئے ایسا معلوم ہونے لگا تھا کہ اسلامی علوم و عقائد یونانی افکار و نظریات کے مقابلہ میں اپنی توانائی اور سربلندی قائم نہ رکھ سکیں گے، ان سنگین حالات میں علماء ہی کی صف سے ایک بزرگ سر سے کفن باندھ کر میدان میں کود پڑے اور اس جرأت واستقامت کے ساتھ کہ خلیفہٴ وقت مامون الرشید کے تہدیدی فرامین اورمعتصم باللہ کے طوق و سلاسل اور تازیانے ان کے پائے استقلال میں لغزش پیدا نہ کرسکے بالآخر اس مرد جلیل کی ثابت قدمی کی برکت سے یہ فتنہ سرد پڑگیا، اور امت ایک عظیم خطرہ سے مامون و محفوظ ہوگئی۔
تیسری صدی میں معتزلہ نے اپنی عقلیت پسندی اور اپنی بعض نمایاں شخصیتوں کے سہارے اس سوئے ہوئے فتنہ کو پھر سے جگانا چاہا، لیکن امام ابوالحسن اشعری جو پہلے اسی کیمپ کے ایک فرد تھے اور ان کے تمام ہتھ کنڈوں سے اچھی طرح واقف تھے، ان کے مقابلہ میں آگئے اور بحث و مناظرہ اور زبانی تفہیم و تقریر کے ذریعہ ان کے حوصلوں کو پست کردیا اور آئندہ ان کے مقابلے کے لئے سو سے زائد نہایت اہم اور وقیع کتابیں بھی تصنیف کردیں اور ساتھ ہی اپنے تلامذہ کی ایک اچھی خاصی جماعت بھی تیار کردی جس نے ہرعالمی محاذ پر معتزلہ کا تعاقب کیا اور انھیں میدان چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
معتزلہ کی اس شکست کے بعد اسی فلسفہٴ یونان کی کوکھ سے ایک نئے فتنہ نے جنم لیا جو اسلام کے حق میں اعتزال سے بھی زیادہ خطرناک تھا، یہ تھا باطنیت کافتنہ! اس فتنہ کے بانیوں نے اپنی ذہانت اور یونانی فلسفے کی مدد سے دینِ اسلام کے اصول و نصوص اور قطعیات میں تحریف و تنسیخ کا دروازہ کھولنے کے ساتھ اسلام و اہل اسلام کے خلاف قوت و طاقت کا بھی مظاہرہ کیا جس کی بناء پر اسلامی حکومتیں عرصہ تک پریشان رہیں۔
اس عظیم فتنہ کی سرکوبی کیلئے بھی صفِ علماء ہی سے ایک مرد کامل آگئے جنھیں ہم امام غزالی کے نام سے جانتے پہچانتے ہیں، انھوں نے براہِ راست با طنیوں سے مقابلہ آرائی کے لئے فلسفہٴ یونان کو نشانہ بنایا جو اکثر فرقِ باطلہ کا ماخذ ومصدر تھا اور اپنے علمی تبحر، قوت استدلال سے اس کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں اور ان فتنوں کے چشمے کو ہمیشہ کیلئے بند کردیا۔ امام غزالی کے ساتھ اس اہم خدمت میں امام رازی اور ابن رشد کے کارنامے بھی بھلائے نہیں جاسکتے۔
خیر یہ سارے واقعات تو زمان و مکان کے اعتبار سے آپ سے دورتر ہیں خود اپنے ملکِ ہندوستان کی تاریخ پر نظر ڈالئے، عہد اکبری میں ”دین الٰہی“ کے عنوان سے اسلام کے خلاف جو عظیم فتنہ رونما ہوا تھا جس کی پشت پر اکبر جیسے مطلق العنان فرماں روا کی جبروتی طاقت بھی تھی، لیکن حضرت مجدد الف ثانی اور ان کے ہمنوا علماء نے اپنے پایہٴ استقامت سے اس فتنہ کے سرکو ہمیشہ کیلئے کچل دیا۔
اور اس آخری دور میں سلطنت برطانیہ کے جلو میں الحاد و زندقہ کا فتنہ نمودار ہوا، اس کے مقابلہ میں بھی اگرکوئی جماعت نبرد آزما نظر آتی ہے تو وہ علماء ہی کی جماعت ہے جنھوں نے سفید فام انسان نما وحشی درندوں کے ہر جوروستم کو برداشت کرکے اسلام اور آئین اسلام کی حفاظت کی اور شہرشہر، قصبہ قصبہ اور قریہ قریہ مدارس کی شکل میں اسلام کی چھاؤنیاں قائم کرکے پورے ملک میں اسلام کے سپاہیوں کا ایک جال بچھادیا۔
چنانچہ ان مدارس کے ذریعہ اس طوفان کے رُخ کو نہ صرف موڑدیاگیا بلکہ اسلام کی جڑیں ملک ہندوستان میں اس درجہ مضبوط ومستحکم کردی گئیں کہ دیگر بلاد اسلامیہ میں یہ استحکام تلاش کرنے کے باوجود بھی نہیں ملے گا۔
آج یہودیت و نصرانیت اور ہندو احیاء پرستی نے ایک بار پھر ہمارے جذبہٴ ایمانی کا امتحان لینے کے لئے اسلامی افکار و نظریات پر حملہ کرنے کے ساتھ مسلمانوں کے شعائر و مآثر پر حملہ شروع کردیا ہے وہ ہماری مقدس کتاب ہمارے عائلی و معاشرتی قوانین اور ہماری عبادت گاہوں کو ہم سے چھیننے کے درپے ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ کی زیرسرپرستی فرقان الحق نامی کتاب کی بھی اسی دجالی سلسلہ کی ایک کڑی ہے، جس کے ذریعہ مسلمانوں کو کتاب الٰہی سے منحرف کرنے کی سازش رچی گئی ہے اس لئے اپنے اکابر واسلاف کی طرح ہمیں اس چیلنج کو قبول کرنا ہے اور ماضی کے فتنوں کی طرح اپنے جہد و عمل اخلاص و للہیت اور علمی و روحانی رسوخ کے ذریعہ اس فتنہ کامقابلہ کرنا ہے، اگر خدانخواستہ ہم نے اس چیلنج کے قبول کرنے سے پہلو تہی کی تو مستقبل کا مورخ ہمارے اس رویے کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ5، جلد: 89 ، ربیع الاول ، ربیع الثانی1426ہجری مطابق مئی 2005ء