حرفِ آغاز
مولانا حبیب الرحمن اعظمی
کہا جاتا ہے کہ عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے، اس لیے ہوسکتا ہے کہ بھولنے والے بھول گئے ہیں، پھر بھی پورا یقین ہے کہ اب بھی بہت سے ایسے لوگ ضرور ہوں گے جنھیں اچھی طرح یاد ہوگا کہ امریکی ٹریڈسنٹرپر حملہ کے بعد دنیا کی سب سے طاقتور اور مہذب سمجھی جانے والی مملکت ریاستہائے متحدہ امریکہ نے صلیب وہلال کی معرکہ آرائی کا نعرہ بلند کیاتھا؛ لیکن اس کے دوررس مضمرات پر سوچ بچار کے بعد اس کے حوالہ سے بظاہر خاموشی اختیار کرلی، اور اس کے بجائے ”جوہمارے ساتھ نہیں وہ دشمن کے ساتھ ہے“ کے فارمولہ کا اعلان ہوا، اس کے بعد اس سپرپاور طاقت نے اپنی تمام ترتوجہ اسلامی دہشت گردی کو مہذب دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت کرنے پر مرکوز کردی، اور اسی کے ساتھ بڑی شدومد کے ساتھ یہ پروپیگنڈہ کیا جانے لگا کہ آج مہذب دنیا کا مقابلہ دراصل اسلامی فاشزم سے ہے، القاعدہ اور اس قبیل کی ساری تنظیمیں فی الواقع اسلامی فاشزم ہی کی نمائندگی کرتی ہیں، جو آزادیٴ فکر، انسانی مساوات، اور جمہوری روایات کی بالکلیہ نفی کرتا ہے۔
مغرب کی تاریخ سے معمولی شُدبُد رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ یہ فاشزم جس کی اسلام کے ساتھ پیوندکاری کی ناروا سعی میں امریکہ مصروف ہے، خالصتاً مغرب کی پیداوار ہے، اس کی جڑیں حقیقتاً ”معاہدہ وارسائی“سے پیوستہ ہیں، جس کے ذریعہ مغرب کے فاتحوں نے جرمنی کے کئی علاقوں پر قبضہ کرنے کے علاوہ اس کے معاشی استحصال کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، فاشزم دراصل ہوس کار ان مغرب کی ہوس ملک گیری اور کمزور قوموں کے معاشی استحصال کے خلاف ایک پرزور، پرشور رد عمل تھا جس نے جرمنی واٹلی کے طالع آزماؤں کو اس مقام پر لاکھڑا کردیا کہ ایک ہمہ گیر جہاں سوز جنگ دنیا کا مقدر بن گئی، فاشزم کی نہ تو کوئی مستحکم نظریاتی اساس تھی اور نہ ہی اس کی پشت پر کوئی منظم فلسفہ؛ بلکہ اس کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ بوالہوسان مغرب کے استحصالی رویہ کے خلاف وہ ردعمل کا ایک بے قابوجوش تھا جو بگولے کی طرح اٹھا اور ایک دنیا کو تباہ کرگیا، یہ بھی شاطران مغرب کا کرشمہ ہے کہ دنیا کو یہ باور کرادیا کہ فاشزم ایک ایسا نظریہ ہے، جو آزادیٴ فکر ونظر اور جمہوریت ومساوات کی نفی کرتا ہے۔
پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ اصطلاح ہر اس جماعت کے لئے استعمال کی جانے لگی جسے مغرب اپنا حریف یا دشمن تصور کرتا تھا، اب تک دنیا صرف اس فاشزم کو جانتی تھی جس کا وجود مغرب میں ہوا تھا اور مغرب ہی اس کی جولانگاہ تھی، اب اسلامی فاشزم کے نام سے اس کی ایک نئی قسم ایجاد کی جارہی ہے، جس کی بنیاد یہی اوربس یہی ہے کہ امریکہ نے ٹریڈسنٹر کے حادثہ کے فوراً بعد صلیبی جنگ کا جو غلغلہ بلند کیا تھا اس سے خاموشی اختیار کرلینے کے باوجود اپنے آپ کو اس فکر سے باہر نہیں نکال سکا ہے، اسلامی فاشزم کی اصطلاح اس کے اسی فکر کی آئینہ دار ہے، امریکہ کی یہ جدید اصطلاح ”دہشت گردی“ سے کہیں زیادہ اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنارہی ہے، مثل مشہور ہے کہ تالی دو ہاتھ سے بجتی ہے، امریکہ اور اس کے ہم نوا اپنے اس رویہ سے دانستہ یا نادانستہ طور پر دہشت گردی کی تالی بجانے والا دوسرا ہاتھ ہوگئے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے ضروری ہے کہ عام مسلمانوں کو اس سے الگ رکھا جائے، انھیں یہ باور کرایا جائے کہ دہشت گرد جو کچھ کررہے ہیں اس کا اسلام سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے؛ لیکن امریکہ اور اس کے ہم فکر ہر آن اس دھن میں لگے رہتے ہیں کہ کسی طرح دہشت گردی کو اسلام سے جوڑدیں، یہی وہ سوچ ہے جس کی بناء پر ”اسلامی فاشزم“ کی انوکھی اصطلاح وضع کی گئی ہے، جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ اس اصطلاح کے گھڑنے والوں کا اصل نشانہ دہشت گرد نہیں؛ بلکہ اسلام ہے، اس کے ساتھ فاشزم کی یہ پیوندکاری کسی وقتی تاثر کی وجہ سے نہیں؛ بلکہ اس کے پس پشت ایک مربوط فکر اور سوچ ہے، جس کے اثرات پورے عالم اسلام میں محسوس کئے جاسکتے ہیں، آزادیٴ فکر وعمل، جمہوریت ومساوات کے بزعم خویش ان محافظوں اور ٹھیکیداروں کا مسلم عورتوں کے برقعہ پر پابندی، بلند آواز سے اذان پر قدغن، اسلامی عبادت گاہوں اور مسلم تنظیموں اور ان کے اداروں کی خفیہ نگرانی، وغیرہ اسی فکر ونظریہ کے ابتدائی مظاہر ہیں، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ اسلام کے حوالے سے امریکہ اور مغرب کے اس فکر وعمل سے خود ہمارے ملک کا ایک طبقہ متاثر ہے، یہ طبقہ کسی خاص گروہ سے ہی متعلق نہیں ہے؛ بلکہ میڈیا، سیاسی رہنماؤں، قانون ساز اداروں، عدل وانصاف کے شعبوں اور سرکاری اہل کاروں وغیرہ زندگی کے ہرشعبے میں کسی نہ کسی حیثیت سے اسلام دشمنی کا یہ زہر پھیلا ہوا ہے، اسی وجہ سے ملک میں اگر کہیں دہشت گردی کا بدبختانہ حادثہ رونما ہوجاتا ہے، تو پوری قوم مسلم پر دہشت گردی کی تلوار آویزاں ہوجاتی ہے۔ میڈیا میں فوراً مسلم مجاہدین جیسے نام نہاد تنظیموں کا شور مچ جاتا ہے، اور بلا تحقیق پڑھے لکھے مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے، آج بھی جرم بیگناہی کی سزا میں نہ جانے کتنے قوم مسلم کے ابھرتے جوان پس دیوار زندان مظلومیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، آج کے دور میں جبکہ ملک کے عام باشندوں کی خوشحالی اور راحت رسانی، تعلیمی واقتصادی ترقی کے لیے پانی کی طرح سرمایہ بہایا جارہا ہے، مگر مسلم اقلیتی علاقوں میں ان کی ضرورت کے لحاظ سے نہ سرکاری اسکول ہیں، نہ سرکاری ہسپتال اور نہ دیگر سہولتیں، البتہ پولس چوکیوں کا اضافہ ضرور ہوگیا ہے، قوم مسلم نے اپنے خون پسینے کی گاڑھی کمائی کے ذریعہ جدید تعلیم کے جو ادارے قائم کیے ہیں، ان کی ہمت افزائی کے بجائے ان کی راہوں میں اڑچنیں کھڑی کی جاتی ہیں، علی گڈھ مسلم یونیورسٹی ایک طویل عرصہ سے اپنے اقلیتی کردار کی بحالی کے لیے کوشاں ہے مگر اب تک وہ اپنے اس حق سے محروم ہی ہے، اس کے برعکس مسلم مذہبی مدرسے جو اپنے دین، تہذیب اور ثقافت کے تحفظ کے لیے قائم کیے گئے ہیں، یہ مدرسے حکومت سے مالی امداد کا مطالبہ بھی نہیں کرتے ہیں؛ بلکہ ملک کے بڑے مدارس ہی نہیں اکثر مدارس حکومت سے بار بار کہتے چلے آرہے ہیں کہ ہمیں آزادی کے ساتھ جیساکہ دستور نے حق دیا ہے کسی مداخلت کے بغیر کام کرنے دیا جائے مگر حکومت انھیں اپنی تحویل میں لینے اور ان پر مالی نوازش کے لیے بظاہر بے چین ہے، اس بے چینی کے پیچھے دراصل وہی فکر ونظر کارفرما ہے۔
امریکہ ومغرب اگر صلیب وہلال کی معرکہ آرائی کا خواب دیکھ رہے ہیں تو یہ ان کے ذہن کی پستی اور دل کی تنگی ہے، جوان کی قومی خصلت ہے، ہندوستان کو جو اپنی رواداری اور وسیع القلبی کی ایک قدیم تاریخ کا حامل ہے، اسے تو کم از کم مغرب کے اس شور سے متاثر نہیں ہونا چاہئے تھا، یہ ملک کے رہنماؤں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ کیا ملک کی بیس کروڑ آبادی کو ملک کے وسائل سے محروم کرکے اور خواہ مخواہ کے لیے اسے اپنا حریف و مدمقابل بناکر ملک کے یہ رہنما اور حکمراں جس ترقی کا خواب دیکھ رہے ہیں، وہ شرمندئہ تعبیر ہوسکتا ہے؟
سوچو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
——————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 2 ، جلد: 96 ، ربیع الاول 1433 ہجری مطابق فروری 2012ء