از: مفتی محمد راشد ڈسكوی جامعہ فاروقیہ، كراچی
اسلام كا نیرِ تاباں ایسی روشنی لے كر نمودار ہوا كہ ظلمت بھری دنیا كے گوشے گوشے كو نورانیت سے بھردیا، صرف ۲۳ سال كی قلیل مدت میں اسلام نے اپنا لوہا منوالیا اور ہر میدان میں ایسا نظام پیش كیا كہ دنیا امن كا گہوارہ بن گئی، شیر اور بكری ایك ہی گھاٹ پر پانی پیتے نظر آنے لگے، امراء كو عزت ملی تو غریبوں كو سكون اور آسائش ملی، ہر فرد دوسرے كے غم كو اپنا غم اور دوسرے كی تكلیف كو اپنی تكلیف سمجھنے لگا، حتی كہ پورا معاشرہ ایك جسد ِ واحد كا نظارہ پیش كرنے لگا، جس كے ایك حصے كی تكلیف كو محسوس كرنے والا صرف ایك عضو ہی نہیں ہوتا؛ بلكہ پورا جسم ہوتا ہے۔
اسلام كا نظامِ كفالت یا نظامِ تكافل بھی ایسا جامع نظام ہے جس میں بلا كسی تخصیص وامتیاز، معاشرے كے ہر فرد كو كسی نہ كسی شكل میں اتنا سامانِ معاش ہرحال میں میسر ہوجائے، جس كے بغیر عام طور پر كوئی انسان نہ اطمینان كے ساتھ زندہ رہ سكتا ہے، اور نہ ہی اپنے متعلقہ فرائض وحقوق سرانجام دے سكتا ہے، اس نظام كے تحت ملكی وقومی دولت كی گردش كا دائرۂ كار چند اغنیاء اور بڑے مالدار لوگوں كے درمیان محدود نہ ہونے پائے كہ دوسرے ان كے رحم وكرم كے محتاج ہوں؛ بلكہ اس صورت میں تو اور بھی خصوصیت كے ساتھ اسلام اس بات كی تعلیم دیتا ہے، كہ معاشرے كے وہ افراد جو مسكین، محتاج اور نادار ہوں اور كسی طبعی عذر كی وجہ سے معذور ہوں، جس كی وجہ سے كوئی معاشی كام كرنے اور اپنے لیے خود روزی كمانے كے لائق نہ ہوں، یا مناسب روزگار نہ ملنے كی وجہ سے حالت ایسی ہوگئی ہوتو ایسے ضرورت مند افراد كی ’’معاشی كفالت‘‘ حكومت كی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے اوراسی طرح جو اُن كے عزیز وقریب ہیں، اُن كے ذمہ اِن كی كفالت ہوگی اور معاشرے كے دیگر جو مالدار لوگ ہیں وہ صدقاتِ واجبہ و نافلہ اور عطیات سے ایسے افراد كی كفالت كا انتظام كریں گے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے:
اسلام افرادِ معاشرہ كے درمیان جس معاشی مساوات كو پیدا كرنا چاہتا ہے، وہ یہ نہیں كہ معاشرے كے تمام افراد كے درمیان مال ودولت یكساں اور برابر ہو، جتنی اور جیسی ایك فرد كے پاس ہو اتنی اور ویسی ہی تمام افراد كے پاس ہو، كیونكہ ایسی مساوات، خیالی دنیا میں تو ہوسكتی ہے؛ لیكن حقیقت كی دنیا میں نہیں ہوسكتی، اسلام جس مساوات كو چاہتا ہے، وہ یہ ہے كہ مال ودولت كی كمی بیشی كے ساتھ ساتھ افرادِ معاشرہ كے معیارِ زندگی اور مظاہر معیشت میں زیادہ سے زیادہ ہو؛ لہٰذا اسلام غنی كو حكم دیتا ہے كہ وہ اپنا زائد اور اضافی مال راہ خدامیں خرچ كركے اللہ تعالیٰ كی خوشنودی اور روحانی عظمت اور اخلاقی برتری حاصل كرے۔
اس كے بعد یہ جاننا بھی نہایت ضروری ہے كہ مغربی دنیا اور بعض جدّت كی طرف مائل مسلم دانشور بھی یہ پروپیگنڈہ كرتے نظر آتے ہیں كہ ’’اسلام نے كوئی معاشی نظام نہیں دیا‘‘ ان كا یہ كہنا انتہائی مضحكہ خیز معلوم ہوتا ہے؛ اس لیے كہ معیشت كا تعلق حصولِ رزق اور پیدائش ِ دولت سے ہے، اور یہ بات واضح ہے كہ كھانے پینے، پہننے، اوڑھنے اور رہنے سہنے كے لیے انتظام كیا جانا انسانی تاریخ كا اتنا قدیم عنصر ہے، جتنی دنیا كی تاریخ، تو كیا ایسا ممكن ہے كہ اسلام آنے كے بعد ہزار سال تك (جوكہ دنیا میں اسلام كے عروج كا دور ہے) لوگ ضروریاتِ زندگی سے محروم تھے؟!
ہرگز نہیں! بلكہ حضراتِ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم كا مختصر دور تو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور كردیتا ہے،كہ جو نظام محض ۲۳/سال میں انھوں نے پوری دنیا میں متعارف كراكے رائج بھی كردیا اور وہ ۳۲/سال تك اپنی پوری آب وتاب كے ساتھ قائم رہا، پھر غیروں كی سازشوں اور كوششوں سے اِس نظام كے ختم ہونے تك ایك ہزار برس لگ گئے، یعنی جو فلسفۂ معاش ساتویں صدی عیسوی میں انسانیت كے سامنے آیا اُس كے اثرات سترہویں صدی عیسوی تك بھی مٹائے نہ جاسكے، اور آج بیسویں صدی میں بھی دنیا كی ایك بہت بڑی آبادی اِس نظام كو اپنائے ہوئے ہے، پھر اِس نظام كو فرسودہ كیونكر كہا جاسكتا ہے؟!
اسلامی نظامِ معاش ونظامِ كفالت كو برباد كرنے كے لیے برسہا برس كی كوششیں ہوئیں، منصوبے بنے، اُن پر عمل ہوا، اور ایك حد تك اِن اسلام دشمن عناصر كو كامیابی بھی ہوئی، اُن منصوبوں میں سے ایك منصوبہ ’’نظامِ انشورنس‘‘ بھی ہے جو اسلام كے نظامِ كفالت ِ عامہ كو ختم كرنے كے لیے وجود میں آیا، ایك نظر اِس مغربی نظامِ انشورنس كے مقاصد پر ڈال لی جائے تاكہ اس كے مقابل اسلام كے نظامِ كفالت كی جامعیت اور افادیت پوری طرح واضح ہوجائے۔
نظام انشورنس سماجی اور معاشی تحفظ كا ضامن نہیں بن سكتا؛ كیوںكہ اِس كا دائرہ كار انتہائی محدود ہے، اگر تھوڑا بہت نظر آرہا ہے تو محض اِن ہی افراد كے لیے یہ نظام ہے، جو كمپنی كی پالیسی لیتے ہیں، یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو عام طور پر سرمایہ دار ہی ہوتے ہیں، اِس نظام میں ایسے طبقہ یا افراد كے لیے كوئی حصہ نہیں ہے، جو اُن كے پالیسی ہولڈر نہیں ہیں، جو معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں، ایسے افراد كو سہارا دینے كا، ان كا ساتھ دینے كا، ان كو چلانے كا، گرے پڑے ہوؤں كو اٹھانے كا كوئی پروگرام یا كوئی حصہ نہیں ہے، جو معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں، اِس نظام میں نہ یتیم بچوں كے سروں پر ركھنے كے لیے دست ِ شفقت ہے (كیوں كہ ان كا باپ پالیسی ہولڈر نہیں تھا) اور اُس بیوہ كے لیے كھانے كے ایك لقمہ كا بھی انتظام نہیں ہے، جس كا مزدور خاوند بیمہ كمپنی میں اپنا یا اپنی اس بیوہ كا بیمہ نہ كراسكا تھا، اِس نظام میں اُن غرباء اور مساكین كے لیے كوئی پالیسی یا انتظام نہیں ہے، جو مكان نہ ہونے كے باعث كھلے آسمان تلے زندگی بسر كررہے ہیں یا دن بھر مزدوری نہ ملنے كے سبب بھوكے سونے پر مجبور ہیں، ایسا كیوں؟ اِس لیے كہ وہ بیمہ كمپنی كے ممبر نہیں ہیں، اُن كے پاس اِن كی اَقساط ادا كرنے كے لیے وسائل نہیں ہیں۔
مذكورہ تفصیل كے بعد یہ بات كھل كر سامنے آجاتی ہے، كہ ’’نظامِ انشورنس‘‘ جس پر آج مغرب فخر كررہاہے اور غریبوں كو اپنا محسن ہونا بتارہا ہے، جس كے پُرفریب اور پُركشش اشتہارات ’’ہرفكر كو دور كیجیے‘‘! اور ’’غم كو اپنے قریب بھی نہ بھٹكنے دیجیے!‘‘ كا سبق پڑھا رہے ہیں، دراصل یہ (نظام) مذموم سرمایہ كاری كی كوكھ سے جنم لینے والا ایك نیا نظام استحصال، دولت كو اپنے پاس جمع كرتے رہنے كا جدید حیلہ اور عالمِ اسلام میں یہودی كاروبار كو فروغ دینے والا ذہنی، فكری وعملی منصوبہ ہے، جس كا مقصد صرف اور صرف یہ ہے كہ ’’امیر كے لیے سب كچھ اور نادار وبے كَس غریب كے لیے كچھ نہیں‘‘۔
اِس كے برعكس اسلام كے نظامِ كفالت ِ عامہ كو پہچانیے اور اِس كی جامعیت اور كاملیت كا بڑی بیدار مغزی اور پوری بصیرت سے جائزہ لیجیے كہ كتنا دودھ اور كتنا پانی ہے؟! جس كا مقصد اسلامی ریاست كے متمول، صاحبِ ثروت افراد سے جائز اور شرعی طریقے سے لے كر اور عرباء ومساكین و معذورین سے كچھ بھی نہ لے كر مملكت وریاست كے تمام باشندوں (بلا تمیز مسلم وكافر) كی ہر قسم كی سماجی، ومعاشی حاجات وضروریات كی كفالت، غیرمتوقع پیش آمدہ حادثات كا تحفظ اور نقصانات كی تلافی كی ضمانت دینا ہے۔
یہ نظام (كفالت) اس معاشی نظام كا ایك حصہ ہے جس كا مقصد محض معاشی كفالت نہیں؛ بلكہ اس كے ساتھ ساتھ امن وسلامتی كی ضمانت دینا ہے، اس (اسلامی نظام) كاركن بننے كے لیے كوئی قسط اور كوئی فیس نہیں ادا كرنا پڑتی؛ بلكہ صرف احكاماتِ الٰہیہ كے سامنے سرتسلیم خم كرتے ہوئے اسلام كو بحیثیت ضابطہ حیات تسلیم كرنا، امراء كا جائز شرعی واجبات (زكاة، صدقات واجبہ، عشر وغیرہ) ادا كرنا اور پوری زندگی اللہ كا بندہ بن كر رہنا اور بصورتِ ذمی، اسلامی ریاست كا وفادار شہری بن كر رہنا اور معمولی جزیہ (بدلِ تحفظ) كا ادا كرنا ہے۔
اسلام جس قسم كا نظامِ كفالت پیش كرتا ہے، اس میں اوّلیت اس بات كو دی گئی ہے كہ اسلامی ریاست كا كوئی شخص بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ رہے، اس نظام میں امیر كو ترغیب دے كر، اور آخرت كا خوف دلاكر یہ درس دیا جاتا ہے كہ وہ غریب اور محروم المعیشت تك اس كی ضروریاتِ زندگی پہونچائے، جو شخص مفلس اور نادار كی حاجت روائی نہ كرے وہ كامل مسلمان ہی نہیں۔
معاشی نظام سے متعلق قرآن پاك كا اُسلوب
اسلام میں كمال حاصل كرنے كے لیے جن صفات كا ہونا ضروری ہے، اُن میں سے ایك صفت غرباء كو كھانا كھلانے كی تلقین بھی ہے، ملاحظہ ہو:
’’أرءیتَ الذی یكَذِّبُ بالدِّینِ، فَذٰلِكَ الَّذِی یدُعُّ الیتِیمَ، وَلَا یحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِینِ‘‘۔ (الماعون: ۱ تا ۳)
ترجمہ: ’’كیا تونے ایسے شخص كو دیكھا جو جزا وسزا كا منكر ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم كو دھكے دیتا ہے اور مسكین كو كھانا كھلانے كی تلقین نہیں كرتا۔‘‘
دیكھیے! غریب كو خود كھانا كھلانے سے انكار تو دور كی بات ہے، یہاں تو اگر كوئی فرد كسی دوسرے متمول شخص كو كسی بھوكے كو كھانا كھلانے كی تلقین نہیں كرتا تب بھی اسے صحیح اور كامل دین دار قرار نہیں دیا جارہا۔
ایك اور جگہ تو بہت سخت لہجے میں فرمایاگیا:
’’خُذُوْہ فَغُلُّوہ، ثُمَّ الجَحِیمَ صَلُّوہ، ثُمَّ فِی سِلْسِلَةٍ ذَرْعُھا سَبْعُوْنَ ذِرَاعاً فَاسْلُكُوہ، إنَّہٗ كَانَ لاَ یؤمِنُ بِاللہِ العَظِیمِ، وَلاَ یحُضُّ عَلٰی طَعَامٍ۔‘‘ (الحاقة: ۳۰ تا ۳۴)
ترجمہ: اسے پكڑو اور اس كے گلے میں طوق ڈالو، پھر اسے جہنم میں داخل كرو پھر اسے سترگز لمبی زنجیر میں جكڑدو،یقیناً یہ وہی ہے جو خدائے بزرگ وبرتر پر ایمان نہیں لایا تھا، اور نہ ہی محتاج كو كھانا كھلانے كی ترغیب دیتا تھا۔‘‘
ایك اور جگہ ایمان والوں كی صفات ذكر كرتے ہوئے ارشاد فرمایاگیا:
’’وَیطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْكِیناً وَیتِیماً وأسِیراً‘‘. (الدہر:۸)
ترجمہ: ’’اور وہ اللہ تعالیٰ كی محبت میں (اپنا) كھانا مسكین، یتیم اور قیدی كو كھلاتے ہیں۔‘‘
ایك اور جگہ ارشاد فرمایا:
’’فِی أَمْوَالِھمْ حَقٌ مَعْلُوْمٌ، لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ‘‘. (المعارج: ۲۴، ۲۵)
ترجمہ: ’’ان كے اموال میں ایك مقررہ حصہ ہے، مانگنے والوں كا اور ہارے ہوئے كا۔‘‘
مذكورہ آیات میں امراء كے لیے ایك راہ عمل متعین كردی گئی، اور پھر دوسرے طرز پر مقصد یہ بتایا گیا كہ:
’’كَی لاَ یكُونَ دُوْلَةً بَینَ الأَغْنِیاءِ مِنْكُمْ‘ ‘. (الحشر:۷)
ترجمہ: ’’تاكہ وہ (دولت) تمہارے مالداروں ہی كے درمیان گردش نہ كرتی رہے۔‘‘
آیتِ كریمہ میں اسلامی معاشرے اور حكومت كی معاشی پالیسی كا یہ بنیادی قاعدہ بیان كیاگیا ہے كہ دولت كی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہیے، ایسا نہ ہو كہ مال صرف مالداروں میں ہی گھومتا رہے، یا امیر! روز بروز امیر تر اور غریب دن بدن غریب تر ہوتے چلے جائیں، اس مقصد كے لیے سود حرام كیاگیا، زكوٰة فرض كی گئی، مالِ غنیمت میں خُمس مقرر كیاگیا، صدقات كی ترغیب دی گئی، مختلف قسم كے كفارات كی ایسی صورت تجویز كی گئی جن سے غریب افراد كی خاطر خواہ دلداری اور حاجت براری ہوسكے، میراث كا ایسا قانون بنایا گیا كہ ہر مرنے والے كی چھوڑی ہوئی دولت زیادہ سے زیادہ وسیع دائرے میں پھیل جائے، اخلاقی حیثیت سے بخل كو سخت قابلِ مذمت اور سخاوت و فیاضی كو بہترین صفت قرار دیاگیا، الغرض وہ تمام انتظامات كیے گئے كہ دولت پر بااثر لوگوں كی اجارہ داری قائم نہ ہو اور دولت كا بہاؤ امیروں سے غریبوں كی طرف بھی ہوجائے۔
احادیثِ مباركہ كا معاشی نظام سے متعلق اُسلوب
سرمایہ دارانہ نظام كا خاصہ ہے كہ یہ افرادِ معاشرہ سے سخاوت كو بالكلیہ ہی ختم كردیتا ہے، چنانچہ اِس نظام كی كسی بھی كتاب كو اُٹھاكے دیكھ لیا جائے كہ اس میں سخاوت وفیاضی كا كوئی ایك بھی عنوان ڈھونڈنے سے نہ مل سكے گا، اس كی وجہ یہی ہے كہ اس نظام كا خمیر ہی بخل اور امساك سے اٹھایاگیا ہے، جب كہ سخاوت وفیاضی كریمانہ اَخلاق كے وہ حصے ہیں جو اللہ رب العزت كی راہ میں خرچ كرنے سے فقراء ومساكین كی محبت، دنیاداری كی حقارت جیسی عمدہ روحانی غذا پاتے ہیں، نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخاوت وفیاضی كے اوصافِ حمیدہ كے ذریعے اپنے مال ودولت میں امت كے غریب و بے كس كو بھی شامل فرمایا اور اِس طرح گردشِ دولت كی راہیں كشادہ كردیں اور بخل واِرتكازِ دولت كی عاداتِ رذیلہ كے مضر اثرات كو ختم فرمایا، اور اِس خصلتِ حمیدہ میں امت كو بھی اپنے ساتھ شامل فرمایا، جا بجا ان كی ذہن سازی كی، كبھی ترغیب كے ذریعے اور كبھی ترہیب كے ذریعے، لیكن اِن سب سے بڑھ كر خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم كا اپنا پاكیزہ عمل نمونہ تھا، جس كی ادنیٰ سی جھلك پہلی بار نازل ہونے والی وحی كے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر طاری ہونے والی گھبراہٹ كو دیكھ كر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا كا آپ كو تسلی دیتے ہوئے آپ كی اعلیٰ صفات شمار كروانا ہے، ملاحظہ ہو:
’’فَقَالَتْ خَدِیجَةُ: كَلّا وَاللہ مَا یخْزِیكَ اللہ أبَداً إنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحْمَ تَحْمِلُ الكلَّ وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ وتُقْرِی الضَّیفَ وَتُعِینُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ‘‘ (صحیح البخاری، كتاب بدء الوحی، رقم الحدیث: ۳، ۱/۷، دارطوق النجاة)
ترجمہ: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی گھبراہٹ كو دیكھ كر) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’ہرگز نہیں! اللہ تعالیٰ آپ كو كبھی رسوا نہیں كریں گے، آپ تو رشتوں كو جوڑنے والے ہیں، آپ تو كمزوروں، بے كسوں كا سہارا بنتے ہیں، جن كا كوئی كمانے والا نہیں آپ اُن كو كماكر كھلاتے ہیں، ناتوانوں كے بوجھ اُٹھاتے ہیں، مہمانوں كی مہمان نوازی كرتے ہیں اور آفت زدہ لوگوں كی مدد كرتے ہیں۔‘‘
یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی صفاتِ عالیہ كی ایك ادنیٰ سی جھلك ہے، ورنہ تو پوری حیاتِ طیبہ یہی اُسوہ پیش كرتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’أیما أَھلِ عَرْصَةٍ أصْبَح فِیھمْ اِمْرَءٌ جَائِعاً فقد بَرِئَتْ مِنْھمْ ذِمَّةُ اللہ‘‘۔ (المستدرك علی الصحیحین، كتاب البیوع، رقم الحدیث: ۲۱۶۵، ۲/۱۴، دارالكتب العلمیة)
ترجمہ: ’’كسی بھی بستی میں كوئی شخص اس حال میں صبح كرے كہ وہ رات بھر بھوكا رہا ہو، تو اللہ رب العزت كا ذمہ اس بستی سے بری ہے۔‘‘
نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غرباء كی امداد كی اس قدر ترغیب دی كہ صحابہ رضی اللہ عنہ كہنے لگے كہ ہمارے پاس جو زائد اموال ہیں ان میں ہمارا كوئی حق نہیں ہے، ملاحظہ ہو:
’’عَنْ أبی سعیدِن الْخُدْرِی رضی اللہ عنہ قال: ’’بَینَمَا نَحْنُ فِی سَفَرٍ مَعَ النَّبِی صلی اللہ علیہ وسلم إذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلٰی رَاحِلَةٍ لہ، فَجَلَ یصْرِفُ بَصَرَہٗ یمِیناً وشِمالاً‘‘، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’مَنْ كَانَ مَعَہ فَضْلُ ظَھرٍ فَلْیعُدْ بِہٖ عَلی مَن لاَ ظَھرَ لَہٗ، وَمَنْ كَانَ لَہٗ فَضْلٌ مِنْ زَادٍ، فَلْیعُدْ بِہٖ عَلٰی مَنْ لاَ زَادَ لَہٗ‘‘ فذكر من أصنافِ المالِ ما ذكر حتیٰ رَأینا أنَّہ لا حَقَّ لأحدٍ مِنّا فی فَضْلٍ‘‘۔ (ریاض الصالحین، باب الإیثار والمواساة، رقم الحدیث: ۵۶۶، ص:۱۷۳، دارالسلام)
ترجمہ: ’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ‘‘ روایت كرتے ہیں كہ ہم نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كے ہمراہ ایك سفر میں تھے كہ ایك شخص آیا اور دائیں بائیں دیكھنے لگا، تو نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا كہ جس كے پاس زائد سواری ہو وہ اُسے دے دے جس كے پاس سواری نہ ہو، اور جس كے پاس ضرورت سے زائد زادِ راہ ہوتو وہ (اُس توشے كو) اُسے دے دے جس كے پاس زادِ راہ نہ ہو، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف انواع كے اموال (اسی طرح اوروں كو دے دینے) كا ذكر فرماتے رہے كہ ہم (میں سے ہرایك) نے گمان كرلیا تھا كہ ہم میں سے كسی كو بھی اپنے ضرورت سے زائد مال پر كوئی حق نہیں۔‘‘
ایك اور حدیث شریف میں ارشاد فرمایا:
’’مَنْ كَانَ عِندَہ طَعَامُ إثنینِ فَلْیذْھبْ بِثَالثٍ، فإن أربعٌ فخامسٍ، أو سادسٍ‘‘ (صحیح بخاری، كتاب الھیبة، رقم الحدیث: ۲۵۸۱، ۱/۱۵۶، دارالشعب القاہرة)
ترجمہ: آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ’’جس كے پاس دو آدمیوں كا كھانا ہو وہ تیسرے آدمی كو اپنا مہمان بنالے، اور اگر چار (آدمیوں) كا كھانا ہو تو پانچویں یا چھٹے كو (اپنا مہمان بنالے)‘‘۔
ایك اور روایت میں ہے كہ:
’’طعامُ الإثنینِ كافی الثلاثةِ وطعامُ الثلاثةِ كافی الأربعةِ‘‘ (ریاض الصالحین، باب الإیثار والمواساة، رقم الحدیث: ۵۶۵، ص:۱۷۳، دارالسلام)
ترجمہ: ’’دو افراد كا كھانا تین افراد كو كفایت كرجائے گا او رتین كا كھانا چار كو كفایت كرجائے گا‘‘۔ كفالت كے اس سلسلے كو مزید وضاحت كے ساتھ بیان كرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’عَنْ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ یقول: سَمِعْتُ رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ’’طعامُ الواحدِ یكْفِی الإثنینِ وطعامُ الإثنینِ یكفی الأربعةَ وطعامُ الأربعةِ یكفی الثمانیةَ‘‘. (صحیح مسلم، كتاب الأشربة، باب فضیلة المواساة، رقم الحدیث: ۵۴۸۹، ۲/۱۳۲، دارالجیل، بیروت)
ترجمہ: ’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں كہ میں نے نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كو ارشاد فرماتے ہوئے سنا كہ ایك فرد كا كھانا دو كے لیے كافی ہوجائے گا، دو كا كھانا چار افراد كے لیے كافی ہوجائے گا، اور اسی طرح چار افراد كا كھانا آٹھ افراد كے لیے كافی ہوسكتا ہے۔‘‘
یہ ہیں وہ تعلیمات جو اسلام كی جامعیت كا منہ بولتا ثبوت ہیں، جن پر عمل پیرا ہوكر یہ امت وحدتِ امت كا نمونہ پیش كرسكتی ہے، یہ تصور امت كے اندر سے منافرت كی بوتك مٹادیتا ہے، اور امت مسلمہ كو یك جان كردیتا ہے، اس كی بہت ہی دلكش تعبیر نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے:
’’مَثَلُ المؤمنینَ فِی تَوادِّھمْ وتَرَاحُمِھمْ وتَعَاطُفِھمْ مِثْلَ الجَسَدِ إذا اشْتَكیٰ منہ عُضْوٌ تَداعىٰ لَہٗ سائرُ الجِسْمِ بِالسَھرِ وَالحَمىٰ‘‘ (صحیح مسلم، كتاب البر والصلة، باب تراحم الؤمنین، رقم الحدیث: ۶۷۵۱، ۸/۲۰، دارالجیل، بیروت)
ترجمہ: ’’مؤمنین كی مثال ان كے آپس میں محبت وشفقت، اُنس ومودت اور لطف وكرم میں ایك جسم كی مانند ہے، جس كے ایك عضو كو تكلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم بیداری اور بخارمیں اس كا شریك ہوتا ہے۔‘‘ اس سے اندازہ كرلینا چاہیے كہ كیا مغرب كا پیش كردہ ’’نظامِ انشورنس‘‘، اسلام كے ’’نظامِ كفالت عامہ‘‘ كے برابر ہوسكتا ہے؟!
اس كے علاوہ اور بہت سی روایات وآثار اس بارے میں منقول ہیں، مثلا:
’’صَحَّ عَن أبی عبیدةَ بنِ الجراحِ وَثَلثُ مائةِ مِنَ الصحابةِ أن زَادَھمْ فنی، فأمرھم أبو عبیدةُ، فأجمعوا أزوادَھم فی مِزْودین وجَعَلَ یقُوتُھم إیاھا على السواء‘‘. (الملّٰى لابن حزم، كتاب الزكاة، إن اللہ فرض على الأغنیاء ما یكفی الفقراء، ۴/۲۸۳، دارالكتب العلمیة)
ترجمہ: ’’حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور تین سو صحابہ كرام رضی اللہ عنہم سے متعلق یہ روایت درجۂ صحت كو پہنچتی ہے كہ (ایك مرتبہ) ان كا سامانِ خوردونوش ختم ہونے كے قریب آلگا تو حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے حكم دیا كہ جس جس كے پاس جس قدر ہے، وہ حاضر كرے اور پھر سب كو یكجا كیا اور ان سب میں برابر تقسیم كركے سب كو ’’قوتِ لایموت‘‘ كا سامان مہیا كردیا۔‘‘
وَعَنْ أبی موسىٰ رضی اللہ عنہ، قال قال رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إن الأَشْعَرِیین إذا أرَامَلُوا فی الغزوِ، أو قَلّ طعامُ عیالِھمْ بالمدینةِ، جَمَعُوا مَا كان عندَھم فی ثوبٍ واحدٍ، ثم اقْتَسَمُوہ بَینَھم فی إناءٍ واحدٍ بالسویة، فَھمْ مِنِّی وأنا مِنْھم‘‘. (ریاض الصالحین، باب الإیثار والمواساة، رقم الحدیث: ۵۶۸، ص:۱۷۳، دارالسلام)
غور كریں اس حدیث شریف میں نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعری قبیلہ والوں كی اس وجہ سے تعریف كی كہ جب كبھی سفر حضر میں ان كے ہاں غلہ كی كمی ہوجاتی تو وہ اپنا غلہ ایك كپڑے میں جمع كردیتے اور پھر برابر تقسیم كرلیتے؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان كے بارے میں خوش ہوكر فرمایا: ’’وہ لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔‘‘
’’المحلی بالآثار‘‘ میں علامہ ابن حزمؒ نے لكھا ہے كہ ’’اس بات پر صحابہ كرام رضی اللہ عنہم كا اجماع ہے كہ اگر كوئی شخص بھوكا، ننگا یا ضروریاتِ زندگی سے محروم ہے تو مالدار كے خاص مال میں سے اس كی كفالت كرنا فرض ہے۔‘‘ (المحلی بالآثار، كتاب الزكاة: ۴/۲۸۳، دارالكتب العلمیة)
’’اسلام كا اقتصادی نظام‘‘ میں حضرت مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی رحمہ اللہ نے لكھاہے كہ تمام ائمۂ مجتہدین كا بھی یہی مسلك ہے (اسلام كا اقتصادی نظام، ص:۴۶، ندوة المصنّفین)
خلاصۂ كلام! اسلام اپنی تعلیمات كے ذریعے تعاون وتكافل كا وہ اعلیٰ ترین معیار قائم كرتا ہے، جس كی بلندیوں تك آج مذموم سرمایہ دار اور لادین اشتراكی ذہن ركھنے والے كا تخیل، پرواز ہی نہیں كرسكتا۔ اسلام معاشی كمزوریاں دور كرنے كے لیے اجتماعی كفالتِ عامہ كا جو تصور پیش كرتا ہے اُسے صرف وعظ وتلقین ہی تك نہیں چھوڑا، اور نہ ہی اسے صرف انفرادی اور اجتماعی وجدان كے رحم وكرم كے سپرد كیا ہے؛ بلكہ اسلامی ریاست كے امیرالمؤمنین كو ذمہ دار بنایا ہے، كہ وہ اس نظام كو عملی جامہ پہنائے اوراس كے احیاء میں آنے والی ہرركاوٹ دور كرے۔
اسلامی نظامِ تكافل كی حدود اورطریقہ كار
مندرجہ بالا سطور میں یہ بات تفصیل سے گذرچكی ہے كہ كفالت ِ عامہ بنیادی طور پر اسلامی ریاست كی ذمہ داری ہے، اس كے تحت اب جائزہ اس بات كا لینا ہے كہ یہ نظام، ریاست میں بسنے والے صرف مسلمانوں كے لیے ہوگا یا غیرمسلم بھی اس نظام سے مستفید ہوسكیں گے اور پھر اس نظام كے تحت كس قسم كی ضروریات پوری كی جائیں؟ ہر انسان كے ساتھ كچھ ضرو ریات ایسی ہوتی ہیں، جو انسانیت كی فلاح وبہبود سے متعلق ہوتی ہیں، مثلاً تعلیم، صحت، تزویج، نومولود بچوں كے وظائف، معذور افراد كی دیكھ بھال، مقروضوں كے قرضوں كی ادائیگی وغیرہ۔
اس كے بعد یہ جاننا بھی ضروری ہے ، نظامِ كفالت كا سارا بوجھ سركاری ریاست كے ہی ذمے ہے یا معاشرے كے افراد بھی اس میں شامل ہیں؛ چنانچہ معلوم ہوتا ہے كہ افرادِ امت كے ذمہ بھی كچھ مختلف نوعیت كی ذمہ داریاں لاحق ہوتی ہیں، جن میں كچھ قانونی اور كچھ اخلاقی ذمہ داریاں ہیں، قانونی ذمہ داریوں كو ’’صدقاتِ واجبہ‘‘ (مثلاً: زكوٰة، عشر، صدقۂ فطر، كفارات، اور نذور وغیرہ) اور اخلاقی ذمہ داریوں كو ’’انفاق‘‘ (مثلاً: صدقاتِ نافلہ، قرضِ حسنہ، ہبہ، عاریت، وصیت، امانت، اوقاف، میراث، اور نفقات وغیرہ) سے تعبیر كیا جاسكتا ہے۔
پھر اس كے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے كہ یہی سركاری ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری كرنے كے لیے مصارف كہاں سے اور كیسے لائیں گے؟ اس كے لیے كون كون سے ذرائع اختیار كیے جائیں گے؟ تو یہ مصارف اور ذرائع آمدنی اسلام میں متعین ہیں، مثلاً: زكوٰة، خمس، متعین شرائط كے ساتھ جائز ٹیكس، اموالِ فاضلہ، خراج، منافع تجارت وغیرہ۔
خلاصۂ كلام! اگر مندرجہ بالا شعبوں كا احیاء ہوجائے اور یہ مصروفِ عمل ہوجائیں تو ممكن ہی نہیں كہ ملك میں دولت كے ذخائر پر محض چند اور مخصوص افراد قابض ہوں، اور گردشِ دولت كا بہاؤ صرف اور صرف سرمایہ كاروں كی طرف ہی ہو، اوراس كے برعكس دوسری طرف غریب طبقہ ظلم كی چكی میں پس رہا ہو، اور بھوك پیاس كی حالت میں ایك ایك لقمے كا محتاج ہو۔
اگر اسلام كا یہ نظامِ كفالت وجود میں ہو تو كوئی وجہ نہیں كہ ہمیں غیروں كے بنائے ہوئے نظامِ انشورنس وغیرہ كا سہارا لینا پڑے اور اپنے دین ومذہب كا خون كرنا پڑے؛ البتہ اس كے لیے انتھك محنت كرنا ہوگی، كہ جس طرح آج سے چودہ سو سال قبل یہ نظامِ كامل پوری طرح چمكتا ہوا، انسان كو انسان اور جہالت و نفسانیت میں ڈوبے معاشرے كو ایك صالح اور پُرامن معاشرے میں ڈھال چكا تھا، جس كی حقانیت كا اعتراف اپنے تو اپنے، غیر بھی كرنے پر مجبور ہوگئے، اسلامی اخوت اور بھائی چارے كی ایسی ایسی مثالیں قائم ہوئیں كہ آج تك مغرب معاشرہ اس كی كوئی نظیر پیش نہ كرسكا، تو كوئی وجہ نہیں كہ كوئی نظام اس وقت ’’جب كوئی ظاہری ٹھاٹ باٹ نہ تھے‘‘ اپنا اثر قائم كرسكتا ہو اور آج كے دور میں بے اثر ہو!! اگر معاشرے كے چند بااثر افراد مل كر ہمت وكوشش كرلیں اور اپنے فاضل اموال كو مذكورہ بالا مدّات میں خرچ كرلیں اور پھر ان كی دیكھا دیكھی كچھ اور، اور پھر كچھ اور، حتیٰ كہ ہر طرف ایك عام فضا بن جائے تو یقیناً مقصود حاصل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
اسلام كا نظامِ كفالت كن كن افراد كے لیے مفید ہوگا؟
اسلامی ریاست میں بسنے والے چونكہ صرف مسلمان ہی نہیں ہوتے؛ بلكہ غیرمسلم بھی ہوتے ہیں تو ریاست میں مقیم ہر مسلم وغیرمسلم كی كفالت اس نظام كا حصہ ہے۔ حضرت ابوبكر صدیق رضی اللہ عنہ كے عہد ِ مبارك میں جب ’’حیرہ‘‘ فتح ہوا تو اس موقع پر ایك معاہدہ لكھا گیا جس میں مسلم اور غیرمسلم دونوں كے لیے كفالت ِ عامہ كا ذكر ہے، ملاحظہ ہو:
’’وَجَعَلتُ لھم أیما شیخٍ ضعُفَ عَنِ العَمَلِ أو أصَابَتْہ اٰفةٌ مِنْ اٰفاتٍ أو غَنِیاً فافتَقَرَ وصَارَ أھلُ دینہ یتَصَدَّقُونَ علیہ، طُرِحَتْ جِزْیةٌ، وعِیلَ مِنْ بیتِ مالِ المسلمینَ وعِیالُہٗ ما أقامَ بِدارِالھجرةِ ودارِالإسلام‘‘ (كتاب الخراج لأبی یوسف، باب فی الكنائس والبیع والصلبان، ص:۱۴۴، مطبوعة سلفیة)
اس كا مفہوم یہ ہے كہ حضرت صدیق اكبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا كہ: ’’میں طے كرتا ہوں كہ اگر ذمیوں میں سے كوئی ضعیف ہو، كام نہ كرسكتا ہو، یا آسمانی یا زمینی آفات میں سے كوئی آفت اس پر آپڑے،یا ان كا كوئی مالدار محتاج ہوجائے اوراس كے اہلِ مذہب اس كو خیرات دینے لگیں، تو ایسے تمام افراد كا جزیہ معاف ہے، اور بیت المال سے ان كی اور ان كے اہلِ خانہ كی كفالت كی جائے گی، جب تك وہ دارالہجرة اور دارالاسلام میں اقامت پذیر ہوں۔‘‘
اسی تناظر میں دورِ فاروقی كا بھی ایك واقعہ ملاحظہ كرلیا جائے جسے امام ابویوسفؒ نے اپنی كتاب الخَراج میں نقل كیا ہے:
’’قال: وحدَّثَنی عمرُ بنُ نافعٍ عن أبی بكرٍ قال: مَرَّ عمرُ بنُ الخطابِ رضی اللہ عنہ بِبَابِ قومٍ وعلیہ سائلٌ یسأل، شیخٌ كبیرٌ، ضریرُ البصر، فضَرَبَ عضُدَہ مِنْ خَلْفِہ وقال: مِن أی أھلِ الكتاب أنتَ؟ فقال: یھودی، قال: فما ألجأك إلی ما أرىٰ؟ قال: أُسأَلُ الجزیةَ، والحاجةَ، والسِنَّ، قال: فأخذ عمرُ بیدِہٖ وذَھبَ بہ إلی منزلِہٖ، فرضَخَ لہ بشیء مِنَ المنزِلِ، ثم أَرْسَلَ إلى خازنِ بیتِ المال، فقال: اُنْظُرْ ھذا ھوَ ضُربائَہ، واللّٰہ ما أنصفناہ أن أكلنا شبیبتَہ، ثم نخذُلُہ عند الھرَم ﴿إنما الصدقات للفقراء والمساكین﴾ و ’’الفقراء‘‘ من المسلمین، وھذا من ’’المساكین‘‘ من أھل الكتاب، ووضع عنہ الجزیةَ وعن ضُربائِہ، قال أبوبكر: أنا شھدت ذلك من عُمَرَ ورأیتُ ذٰلك الشیخَ‘‘. (كتاب الخراج لأبی یوسف، فی من یجب علیہ الجزیة، ص:۱۲۶، الطبعة السلفیة القاہرة)
’’اس كا مفہوم یہ ہے كہ ایك بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایك نابینا بوڑھے شخص كو بھیك مانگتے دیكھا، اس سے پوچھنے پر پتہ چلا كہ وہ یہودی ہے، بھیك مانگنے كا سبب دریافت كیا تو اس نے جواب دیا كہ جزیہ كی ادائیگی، معاشی ضروریات اور پیرانہ سالی نے (بھیك مانگنے پر مجبور كردیا) یہ سن كر آپ رضی اللہ عنہ اس كا ہاتھ پكڑ كر اپنے گھر لے گئے، جو موجود تھا وہ دیا، اور پھر بیت المال كے خزانچی كے پاس فرمان بھیجا كہ یہ اور اس جیسے دوسرے حاجت مندوں كی تفتیش كرو، اللہ كی قسم! ہم اس كے ساتھ ہرگز انصاف نہیں كرسكتے كہ اس كی جوانی كی محنت (بصورتِ جزیہ) تو كھائیں مگر اس كے بڑھاپے میں اسے بھیك مانگنے كے لیے چھوڑ دیں، قرآن پاك میں ہے: ﴿إنما الصدقات للفقراء والمساكین﴾ اور میرے نزدیك یہاں ’’فقراء‘‘ سے مراد مسلمان مفلس ہیں (اور ’’مساكین‘‘ سے مراد اہل كتاب كے مساكین وفقراء ہیں) اور یہ سائل مساكینِ اہلِ كتاب میں سے ہے، اس كے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس كا جزیہ معاف كردیا۔‘‘
مذكورہ بالا اور اس جیسی اور بہت سی نظائر سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے كہ اسلام كا نظامِ كفالت بلا تمیز مسلم وكافر سب كے لیے ہے، یہ ایسا ابر ِ رحمت ہے جو باغ اور كوڑے كركٹ، ہر جگہ برستا ہے۔
كن ضروریات كو پوراكیا جائے گا؟
انسان كی ضروریات دو قسم كی ہیں: اوّل وہ ضروریات جن پر انسان كی زندگی كا دارومدار ہے، اور دوسری وہ ضروریات جو حیاتِ انسانی میں نكھار كا سبب بنتی ہیں:
پہلی قسم كی ضرویات:
ضروریات كی اس قسم میں بنیادی طور پر خوراك، لباس، جائے سكونت، اور ابتدائی وضروری طبی امداد شامل ہے، اسلامی حكومت تمام مذكورہ ضروریات كو پورا كرے گی، مولانا حفظ الرحمان سیوہارویؒ لكھتے ہیں كہ: ’’اسلامی حكومت كے سربراہ كے لیے ضروری ہے كہ وہ ہر فرد خواہ وہ امیر ہو یا فقیر، مرد ہو یا عورت كو اس كی استعداد اور حالت كے مطابق ان تین بنیادی ضروریات كے حصول كے لیے ہر قسم كی سہولیات پہنچائے، وہ تین چیزیں یہ ہیں: (۱) كھانے پینے كی سہولت، كیوںكہ یہ ہر فرد كی زندگی كا ذریعہ ہے، اور اس كے بغیر زندگی كا تصور ہی نہیں۔ (۲) لباس كی ضرورت، خواہ وہ روئی كا ہو یا كتان (قیمتی كپڑا) یا اُون كا۔ (۳) ازدواجی زندگی كی سہولت، كیوںكہ یہ انسانی نسل كی بقاء كے لیے ضروری ہے۔‘‘ (اسلام كا اقتصادی نظام، ص:۱۵۳، ندوة المصنّفین)
دوسری قسم كی ضروریات:
اس قسم میں وہ ضروریات شامل ہیں، جو انسان كو اخلاقی اعتبار سے اور معاشرتی اعتبار سے مضبوط كرتی ہیں، ان میں تعلیم وتربیت، صحت ودیگر مصائب، غیرشادی شدہ اور شادی شدہ افراد كی كفالت، مقروضوں كے قرضوں كی ادائیگی، ومولود بچوں كے وظائف، اپاہج وناكارہ افراد كی كفالت، سرایوں كی تعمیر، خواتین اسلام كی كفالت وغیرہ وغیرہ۔ (ان تمام صورتوں كے تفصیلی احكامات كتاب الاموال لابی عبید، كتاب الخراج لیحیٰ بن آدم القرشی، سیرة عمر بن عبدالعزیز لابن عبدالحكیم، سیرة عمر بن عبدالعزیز لابن جوزی، سیرة عمر بن الخطاب لابن جوزی، تاریخ الخلفاء للسیوطی، الطبقات الكبریٰ لابن سعد میں ملاحظہ كیے جاسكتے ہیں)
كفالت كس حد تك كی جائے گی؟
اسلام كے نظامِ كفالت عامہ كی حدود كیا ہیں؟ تو جاننا چاہیے كہ جوں جو اسلامی ریاست وسیع ہوتی جائے گی اور وسائل بڑھتے جائیں گے، اسی طرح كفالت كا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا؛ چنانچہ اسلام كا نظامِ تكافل وكفالت ِ عامہ كی وسعت، جامعیت، كاملیت وحدود كا اندازہ لگانے كے لیے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ جنھیں خلیفۂ راشد تسلیم كیاگیا ہے، كا نمونہ ہمارے سامنے ہے كہ:
’’كَتَبَ عمرُ بنُ عبدِالعزیزِ رَحِمَہ اللہ إلى عَبْدِ الحمیدِ بنِ عبدِالرحمٰنِ، وھو بالعراقِ، ’’أن أخرِجْ للناسِ أعطیاتھم‘‘ فكتب إلیہ عبدالحمید، ’’إنی قد أخرجت للناس أعطیاتھم، وقد بقی فی بیت المال‘‘ فكتب إلیہ: ’’أن انظر كلَّ من أدان فی غیر سفہ ولا سرف، فاقض عنہ‘‘ فكتب إلیہ: ’’إنی قد قضیت عنھم، قد بقی فی بیت مال المسلمین مالٌ‘‘ فتكب إلیہ: ’’أن انظر كل بكرٍ لیس لہ مالٌ، فشاء أن زوجہ، فزوِّجہ واصدق عنہ‘‘ فكتب إلیہ: ’’إنی قدزوّجتُ كل من وجدتُ، وقد بقی فی بیت مال المسلمین مالٌ‘‘ فكتب إلیہ: بعد مخرج ھذا، ’’أن انظر من كانت علیہ جزیة فضعف عن أرضہ فأسلفہ ما یقوی بہ علىٰ عمل أرضہ، فإنا لا نریدھم لعامٍ ولا لعامین‘‘ قال: قال لعمری ھٰذا أو نحوہ‘‘ (كتاب الأموال لأبی عبید، الجزء الثالث: صنع عمر بن عبدالعزیز فی تقسیم الفیء: ۱/۳۶۳، دارالھدی النبوی، مصر)
مذكورہ روایت كا خلاصہ یہ ہے كہ: ’’حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے گورنر كے نام لكھا كہ وہ لوگوں كے عطایا ان كو ادا كرے، گورنر نے جواب لكھا كہ میں نے عوام كے عطایا انھیں ادا كردئیے ہیں؛ مگر بیت المال كی رقم بچی پڑی ہے (اس كا كیا كروں؟) تو آپؒ نے لكھا كہ ایسے مقروضوں كو تلاش كرو جنھوں نے كسی بغیر نادانی كے كاموں كے، یا بغیر فضول خرچی كے قرض لیا ہو، ان كا قرض ادا كردو، گورنر نے لكھا كہ میں نے ایسے تمام (مقروضوں) كے قرضے ادا كردیے ہیں، پھر بھی مسلمانوں كے بیت المال میں رقم بچ گئی ہے، آپؒ نے لكھا كہ ہر ایسے كنوارے كو تلاش كرو جس كے پاس مال نہ ہو، مگر وہ شادی كرنا چاہتا ہو، اس كی شادی كراؤ، اور اس كا مہر ادا كرو، گورنر نے لكھا كہ میں نے جس كسی كو ایسا پایا، اس كا نكاح كرادیا ہے، مگر پھر بھی بیت المال میں رقم باقی ہے، آپؒ نے لكھا كہ ہر ایسے ذمی (شخص) كو تلاش كرو جس پر جزیہ ہو، اور (مفلسی كے باعث) اپنی زمین آباد كرنے سے عاجز ہو، اسے قرضہ دو تاكہ وہ اپنی زمین (كی آبادكاری) كا كام كرنے كے قابل ہوجائے، كیوںكہ ہم ان (ذمیوں) كو صرف ایك سال یا دو سال كے لیے ہی نہیں ركھنا چاہتے (بلكہ ان سے حسن وسلوك كا طویل رشتہ چاہتے ہیں)‘‘۔
اس روایت سے خوب اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے كہ اسلام كا نظامِ كفالت ِ عامہ كتنا جامع اور وسیع ہے كہ وسائل كی دستیابی كےساتھ ساتھ اس كا دائرہ بڑھتا جاتا ہے اور پھیلتا جاتا ہے، اور پھر رعایا كی ضروریات كی تكمیل كا اندازہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ كے ایك ارشاد سے بخوبی لگایا جاسكتا ہے، فرمایا:
’’أما وَاللہ! لَئِنْ بَقِیتُ لِأرامِلِ أھلِ العراقِ لأدعنھن لاَ یفْتَقِرْنَ إلىٰ أمیرٍ بعدی‘‘. (كتاب الخراج لیحیىٰ بن آدم القرشی، باب الرفق بأہل الجزیة، رقم الحدیث: ۲۴۰، ص:۷۳، المكتبة العلمیة)
فرمایا: ’’اللہ (جل شانہ) كی قسم! اگر میں اہلِ عراق كی بیواؤں كے لیے (اگلے سال تك) زندہ رہ سكا، تو انھیں ایسا (غنی) كردوںگا كہ وہ میرے بعد كسی امیر كی اعانت كی محتاج نہ رہیں گی‘‘۔ اور پھر ان خواہشات كی تكمیل حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ كے دورِ خلافت میں ہوئی جس كی طرف ان كے ایك گورنر یحییٰ بن سعید نے اشارہ كیا ہے، ملاحظہ ہو:
’’قال یحیىٰ بنُ سعید بعثنی عمرُ بنُ عبدِالعزیز رحمہ اللہ إلی صدقاتِ إفریقیةَ، فاقْتَضَیتُھا وطَلَبْتُ فقراء، نعطیھا لھم، فلم نجد بھا فقیراً ولم نجد من یأخذھا منی، قد أغنىٰ عمرُ بنُ عبدِالعزیزِ الناسَ، فاشتریتُ بھا رقاباً فأعتقتھم، وولائھم للمسلمین‘‘. (سیرة عمر بن عبدالعزیز لابن عبدالحكیم: ۱/۶۵)
یحییٰ بن سعید بیان كرتے ہیں كہ ’’مجھے امیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے افریقہ میں صدقات كی وصولی كے لیے بھیجا، میں نے صدقات وصول كیے اور ایسے لوگوں كی تلاش كی جنھیں صدقات دے سكوں؛ مگر ایسا شخص نہ ملا جو صدقہ قبول كرے، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اہل عراق كو (اتنا) غنی كردیا تھا (كہ انھیں صدقہ قبول كرنے كی حاجت ہی نہیں رہی تھی) بالآخر میں نے اس صدقہ سے غلاموں كو خریدكے آزاد كیا۔‘‘
یہ انتہاء ہے اسلام كے نظامِ كفالت ِ عامہ كی، اس حقیقت سے نظریں چُراكر مغرب كے قائم كردہ نظاموں كو قائم كرنا، ان كو رواج دینا بالخصوص ’’نظامِ انشورنس‘‘ كو اسلام كے اس كامل نظام كے مقابل كھڑا كرنا ظلم نہیں تواور كیا ہے؟ انسان كا بنایا ہوا نظام شاید قانون ساز كی تجوری كو تو بھرسكتا ہو؛ لیكن ہر ہر انسان كے لیے وہ مفید ومعاون ہو، ایسا ہونا محال ہے، اس عالمی ضرورت كو پورا كرنے كے لیے قانونِ الٰہی ہی كارگرد ثابت ہوسكتا ہے، كوئی اور نہیں۔
نظامِ انشورنس كی خامیاں جو شرعاً اسے ناجائز قرار دیتی ہیں ان كی تفصیلات موجودہ دور كے تمام اكابرین نے ذكر كی ہیں، جو اس یہودی ذہنیت كے قائم كردہ نظام كے كھوكھلے پن كو پوری طرح واضح كردیتی ہیں، ملاحظہ ہو: امداد الفتاویٰ:۳/۳۱۰، امداد الاحكام:۳/۴۹۰، كفایت المفتی:۸/۸۲، احسن الفتاویٰ: ۷/۲۳، فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (امداد المفتیین): ۲/۷۰۷، نظام الفتاویٰ: ۱/۱۸۳، ۲/۲۸۶، فتاویٰ محمودیہ ’’مطبوع جامعہ فاروقیہ‘‘: ۱۶/۳۸۷، فتاویٰ حقانیہ: ۶/۲۱۹، فتاویٰ بینات: ۴/۱۳۶، كتاب الفتاویٰ از مفتی گل حسن صاحب: ۱۲۷/۱، كتاب الفتاویٰ از مولانا سیف اللہ خالد رحمانی صاحب: ۵/۳۵۸، جدید فقہی مسائل:۱/۲۶۰، آپ كے مسائل اور ان كا حل: ۶/۲۵۵، جدید معاملات كے شرعی احكامات: ۱/۱۷۱، جدید مسائل كا شرعی حل، ص:۱۰۶، اسلام اور جدید دور كے مسائل، ص:۱۷۳، اور بیمۂ زندگی از مفتی ولی حسن ٹونكیؒ ومفتی محمد شفیع عثمانیؒ دیوبندی۔
***
————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 12 ، جلد: 95 ، محرم الحرام 1433 ہجری مطابق دسمبر 2011ء