از:           مولانامحمد شعیب اللہ خاں، جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم، بنگلور

                 تصویر کی حرمت پر بہت سے علماء نے اب تک بہت کچھ لکھا ہے اور ہند و بیرونِ ہند کے دارالافتاوٴں سے بھی اس کے بارے میں حرمت کے فتاوی باربار جاری ہوتے رہے ہیں۔ اور تقریباً اس کا حرام و ناجائز ہونا عوام و خواص کے نزدیک ایک مسلمہ امر ہے ؛مگر اس کے باوجو د اس میں عوام تو عوام خواصِ امت کا بھی ابتلاء عام ہے ، اور اسی صورتِ حال کو دیکھ کر بعض ناواقف لوگوں کو اس کے جائز ہونے کا شبہ ہوجاتا ہے ،بالخصوص جب علماء و مدارس اسلامیہ کے ذمہ دار حضرات کی جانب سے تصاویر کے سلسلہ میں نرم رویہ برتا جاتا ہے اور ان کی تصاویر اخبارات و رسائل وجرائد میں بلا کسی روک ٹوک کے شائع ہوتی ہیں، تو ایک عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ حلال ہونے کی وجہ سے لی جا رہی ہے یا یہ کہ ان کے تساہل کا نتیجہ ہے؟ پھر جب وہ علماء کی جانب رجوع کرتا ہے اور اس کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں سوال کرتا ہے تو اس کو کہا جاتا ہے کہ یہ تو حرام ہے ۔اس سے اس کی پریشانی اور بڑھ جاتی ہے اور وہ علماء کے بارے میں کسی منفی رائے کے قائم کرنے میں حق بجانب معلوم ہوتا ہے۔ علماء کی تصاویر کے سلسلہ نے جہاں عوام الناس کو بے چینی و پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے، وہیں اس سے ایک حرام کے حلال سمجھنے کا رجحان بھی پیدا ہو رہا ہے ، جو اور بھی زیادہ خطرناک و انتہائی تشویش ناک صورت حال ہے ؛ کیونکہ حرام کو حرام اورحلال کو حلال سمجھنا ایمان کا لازمہ ہے ،اگر کوئی حرام کو حلال سمجھنے لگے تو اس سے ایمان بھی متأثر ہو تا ہے ۔

                 کسی عربی شاعر نے اسی صورت پر دلگیر ہو کر یہ مرثیہ لکھا ہے :

کَفٰی حُزْنًا لِلدِّینِ أَنّ حَمَاتَہُ

اِذَا خَذَلُوْہُ قُلْ لَنَا کَیْفَ یُنصَر

مَتٰی یَسْلَمُ الْاِسْلَامُ مِمَّا أَصَابَہ

اِذَا کَانَ مَنْ یُرْجٰی یُخَافُ وَ یُحْذَر

                (دین پر غم کے لیے یہ کافی ہے کہ دین کے محافظ ہی جب اس کو ذلیل کریں تو مجھے بتاوٴ دین کی کیسے نصرت ہو گی ؟ اسلام کب ان باتوں سے محفوظ رہ سکتا ہے جو اس کو پیش آرہی ہیں جبکہ جن لوگوں سے اسلام کی حفاظت کے لیے امید لگی ہوئی تھی انھیں سے اس کو خوف وخطرہ لاحق ہو گیا ہے)

                 آج کئی مدارس اور علماء اور دینی و ملی تحریکات کے ذمہ داران کی تصاویر آئے دن اخبارات میں بلا تامل شائع ہو تی ہیں ، یہاں تک کہ بعض علماء کی جانب سے شائع ہو نے والے ماہناموں میں بھی تصاویر کی بھرمار ہو تی ہے اور ان میں عورتوں اور لڑ کیوں کی تصاویر بھی ہو تی ہیں ۔کیا یہ صورتِ حال انتہائی تعجب خیزاور افسوس ناک نہیں ؟ علماء جو رہبرانِ قوم تھے ان کا خود یہ حال ہو تو عوام الناس کہاں جائیں ؟ کسی شاعر نے کہا:

بِالْمِلْحِ نُصْلِحُ مَا نَخْشٰی تَغَیُّرَہ                 فَکَیْفَ بِالْمِلْحِ اِنْ حَلَّتْ بِہِ الْغِیَر

                (ہم نمک کے ذریعہ اس کھانے کی اصلاح کرتے ہیں جس کے خراب ہوجانے کا خدشہ ہو ، اگر نمک ہی میں خرابی پیدا ہو جائے تو کیا حال ہو گا)

                 ہمارے اکابر و علماء و مشائخ تو حلال امور میں بھی احتیاط برتتے اور لوگوں کے لیے تقوے کا ایک اعلی نمونہ ہوا کرتے تھے ،اور یہاں یہ ہو رہا ہے کہ حرام کا ارتکاب بے محابا اور کھلے طور پر کیا جا رہا ہے ۔اگر اس میں اختلاف بھی مان لیا جائے تو رہبرانِ قوم کا کیا فرض بنتا ہے ؟ اس پر غور کیجیے ۔

 حرمتِ تصویراور جمہورِ امت کا مسلک

                 عکسی تصویراور ٹی وی اور ویڈیو کے بارے میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ علماء ہند و پاک ہی ان کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور عالم اسلام کے دوسرے علماء جیسے علماء عرب و مصر وغیرہ سب کے سب ان کو جائز کہتے ہیں ،یہ غلط فہمی خود بندے کو بھی رہی ،لیکن ایک مطالعہ کے دوران علماء عرب و مصر کے متعدد فتاوی وتحریرات نظر سے گزریں تو اندازہ ہوا کہ ان حضرات میں سے بھی جمہورعلماء کا ” عکسی تصویر“ اور” ٹی وی“ اور” ویڈیو “کے بارے میں وہی نقطہ ٴ نظر ہے جو ہندوستانی و پاکستانی علماء کا شروع سے رہا ہے ۔

                 ہاں اس میں شک نہیں کہ وہاں کے بعض گنے چنے علماء نے عکسی تصویر کو جائز کہا ہے اور ٹی وی اور ویڈیو کی تصاویر کو بھی عکس مان کر ان کو بھی جائز کہا ہے،لیکن یہ وہاں کے جمہور کا فتوی نہیں ہے، جمہور علماء اسی کے قائل ہیں کہ یہ تصاویر کے حکم میں ہیں اور اس لیے حرام و ناجائز ہیں ۔ اور خود وہاں کے علماء نے مجوزین کا خوب رد و انکار بھی کردیا ہے ۔جیسے شیخ حمود بن عبد اللہ التویجری نے ” تحریم التصویر “ اور” الاعلان بالنکیر علی المفتونین بالتصویر “نامی رسائل اسی سلسلہ میں لکھے ہیں ، نیز جامعہ قصیم کے استاذ شیخ عبد اللہ بن محمد الطیار نے ” صناعة الصورة بالید مع بیان احکام التصویر الفوتوغرافي “ کے نام سے رسالہ لکھا ہے ،اور مصر کے عالم شیخ ابو ذر القلمونی نے ”فتنة تصویر العلماء “ کے نام سے ان کا رد لکھا ہے ، نیز علماء نے اپنے اپنے فتاوی میں بھی اس پر کلام کیا ہے ۔اسی طرح ڈش آنٹینا جس کا فساد اب حد سے تجاوز کرگیا ہے اور اس نے انسانوں کی تباہی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے، اس کے بارے میں بھی علماء عرب کے فتاوی میں حرمت کا حکم اور اس سے بچنے کی تلقین موجود ہے ۔

حرمتِ تصویر اور علماء ہند وپاک

                جیسا کہ اوپر عرض کیا گیاکہ کیمرے کی عکسی تصویر کی حرمت میں اگر چہ معاصر علماء کے درمیان میں اختلاف ہوا ہے ،اور ایک چھوٹی سی جماعت اس کے جواز کی جانب مائل ہو ئی ہے ،لیکن اس میں کیا شک ہے کہ تصویر کی حرمت جمہور امت کا متفقہ فتوی و فیصلہ ہے ، عرب سے لے کر عجم تک جمہور امت نے اسی کو قبول کیا ہے ۔

                جہاں تک علماء ہند و پاک کا تعلق ہے ،بات بالکل واضح و مسلم ہے ۔ فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب  نے تو اپنے رسالہ ”التصویر لأحکام التصویر“میں یہ تصریح کی ہے کہ ان کے زمانے تک کم از کم ہندوستان (جو اس وقت تک غیر منقسم تھا)میں حضرت مولانا سید سلیمان ندوی کے علاوہ کسی نے جواز پر قلم نہیں اٹھایااور پھر انھوں نے بھی اس سے رجوع کر لیا۔ (جواہر الفقہ: ۳/۱۷۱)

                یہاں یہ عرض کردینا مناسب ہوگا کہ حضرت مولانا سید سلیمان ندوی  نے ماہنامہ ” معارف“ کی متعدد قسطوں میں ایک مضمون عکسی تصویر کے جائز ہونے پر لکھا تھا ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے اس کے رد میں ”التصویر لأحکام التصویر“ لکھی ، اس کو دیکھ کر حضرت مولانا سید سلیمان ندوی نے اپنے جواز کے قول سے رجوع کر لیا تھا ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں کہ یہ رجوع و اعتراف کا مضمون علامہ سید صاحب کے کمال علم اور کمال تقوی کا بہت بڑا شاہکار ہے ، اس پر خود حضرت مرشد تھانوی سیدی حکیم الامت رحمة اللہ علیہ نے غیر معمولی مسرت کا اظہار نظم میں فرمایا ۔

                اس سلسلہ میں دوسری بڑی شہادت و گواہی یہ ہے کہ عالم اسلام کی مشہور و معروف علمی و روحانی شخصیت حضرت اقدس مولانا ابو الحسن علی ندوی علیہ الرحمہ نے بھی اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ہندوستان کے تمام مسلمان تصویر کے حرام ہو نے پر متفق ہیں ۔ چنانچہ آپ کی کتاب لاجواب ” ما ذا خسر العالم بانحطاط المسلمین “ کے شروع میں فضیلة الشیخ الاستاذ احمد الشرباصی نے حضرت والا کا جو تعارف لکھا ہے ،اس میں وہ لکھتے ہیں کہ :

                ” آپ ہر قسم کی تصویر کو برا سمجھتے تھے ،اور خود پر اس کو پوری سختی سے حرام قرار دیتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ میں ایک بار آپ کے ساتھ قاہرہ کے ایک بڑے مطبع میں گیا تو مطبع کے مصور نے آپ کی ایک یاد گار تصویر اتارنے کی اجازت چاہی تو آپ نے منع کردیا اور ذکر کیا کہ : ان المسلمین في الھند متفقون علی حرمة التصویر“ (ہندوستان کے مسلمان تصویر کی حرمت پر متفق ہیں)(ماذا خسر العالم: ۲۱)

                اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا ابو الحسن ندوی علیہ الرحمہ بھی خود تصویر کو حرام سمجھتے تھے اور اس کو کم از کم ہندوستان کے تمام علماء کا متفقہ فیصلہ قرار دیتے تھے ۔

                اور یہاں یہ بھی عرض کر دینا خالی از فائدہ و عبرت نہیں کہ حضرت مولانا ابو الکلام آزاد صاحب مرحوم جنھوں نے مدتِ دراز تک اپنا مشہور اخبار ” الہلال“ با تصویر شائع کیا ، جب وہ رانچی کی جیل میں تھے،آپ کے متعلقین نے آپ کی سوانح شائع کرنا چاہی تو آپ سے سوانح کے ساتھ شائع کرنے کے لیے ایک تصویر کا مطالبہ کیا ، اس پر مولانا ابو لکلام آزاد نے جو جواب دیا وہ خود اسی ” تذکرہ“ میں شائع کیا گیا ہے ، جس میں آپ نے لکھا ہے کہ:

                ”تصویر کا کھنچوانا ، رکھنا ، شائع کرنا سب ناجائز ہے ، یہ میری سخت غلطی تھی کہ تصویر کھنچوائی اور” الہلال“ کو باتصویر نکالا تھا ، اب میں اس غلطی سے تائب ہوچکا ہوں ، میری پچھلی لغزشوں کو چھپانا چاہئے نہ کہ از سر نو ان کی تشہیر کرنا چاہیے “ ۔ (بحوالہ جواہر الفقہ: ۳/۱۷۱)        الغرض اس سے کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کم از کم ہندوستان کے علماء کا تصویر کے عدم جواز پر اتفاق تھا ۔اور رہا حضرت سلیمان ندوی کا جواز کاخیال ،تو آپ نے خود اس سے رجوع کر لیا اور سب کے موافق عدم جواز کے قائل ہو گئے ۔

تصویر کے بارے میں علماء عرب و مصر کا موقف

                اسی طرح دیگر ممالک اسلامیہ میں بھی جمہور علماء کا فتوی تصویر کے ناجائز ہو نے ہی کا ہے ، عام طور پر لوگ مصر کے علماء کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ اس کو جائز قرار دیتے ہیں، مگر یہاں بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ بھی مصر کے چند علماء کا فتوی ہے ، سب کا اور جمہور کا نہیں ،اس کی شہادت مصر ہی کے ایک عالم شیخ ابو ذر القلمونی کی یہ عبارت دیتی ہے جو انھوں نے اپنی کتاب ” فتنة تصویر العلماء “ میں لکھی ہے کہ :

          ” ثم حريّ بطلبة العلم تدارک ھذہ الفتنة، اذ تحریم التصاویر کان مستقرا بین اخواننا، ثم في العقد الاخیر اخذ ھذا المنکر یفشو و یذیع ،حتی صار ھو الاصل، وصار المحق عازفا عن الانکار، اجتنابا للذم“․ (فتنة تصویرالعلماء :۵)

                اس سے معلوم ہوا کہ مصر میں بھی جمہور علماء کے مابین یہی بات مسلم و طے شدہ تھی کہ تصویر حرام ہے ۔لہٰذا مطلقا یہ کہنا کہ مصر کے علماء اس کو جائز کہتے ہیں خلاف واقعہ ہے ۔

                اور سعودی حکومت کی جانب سے قائم کردہ دار الافتاء اور علمی مسائل کی تحقیق کا ایک بڑا و معتبر عالمی مرکز”اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والإفتاء“ نے ایک فتوی میں کہا کہ:

          ”القول الصحیح الذي دلت علیہ الأدلة الشرعیة وعلیہ جماھیر العلماء :أن أدلة تحریم تصویر ذوات الأرواح تضم التصویر الفوتوغرافي والیدوي،مجسما أو غیر مجسم ،لعموم الادلة“․

                 (صحیح قول جس پر شرعی دلائل دلالت کرتے ہیں اور جس پر جمہور علماء قائم ہیں یہ ہے کہ جاندار چیزوں کی تصویر کی حرمت کے دلائل فوٹوگرافی کی تصویر اور ہاتھ سے بنائی جانے والی تصاویر سبھی کو شامل ہیں ،خواہ وہ مجسم ہو یا غیر مجسم ہو ،دلائل کے عام ہو نے کی وجہ سے ) (فتاوی اسلامیة:۴/۳۵۵)

                اس سے بھی معلوم ہوا کہ جمہور امت خواہ وہ مصر کے لوگ ہوں یا سعودی کے یا کسی اور علاقے کے وہاں جمہور اس کے عدم جواز پر متفق ہیں۔

                نیز یہ بھی سنتے چلیے کہ ایک مرتبہ عربی مجلہ ”عکاظ “ میں سات علماء کا تصویر کے جواز کا فتوی شائع ہوا، تو علماء نے اسی وقت اس کا رد کیا ۔ سعودی عرب کے ایک مفتی شیخ حمود بن عبد اللہ بن حمود التویجری نے ” تحریم التصویر“ کے نام سے اس کا باقاعدہ رد لکھا ہے،اس رسالہ میں لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:

                ” جریدہ عکاظ والوں نے اس شاذ فتوی کا جو رسول اللہ ﷺ کے تصاویر کو مٹانے کے حکم کے مخالف ہے ، اس کا جو عنوان رکھا ہے وہ ہے : علماء مصلحت پر متفق ہیں ، اور یہ کہ تصویر حرام نہیں ہے ۔ اس باطل عنوان کو قائم کرنے میں اہل جریدہ کو بہت بڑی خطا لگی ہے ،کیونکہ اس سے عوام یا خواص کالعوام کو یہ وہم ہو تا ہے کہ مصلحت کی وجہ سے تصویر لینے کے حلال ہو نے میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ اور یہ کتاب اللہ و سنت رسول کو مضبوط پکڑنے والے متقدمین و متأخرین علماء پر ایک بہتان ہے ؛کیونکہ وہ تو تصویر سے منع کرتے اور اس میں سختی کرتے ہیں،اور ان سہولت پسند لوگوں کا کوئی اعتبار نہیں جو فتوی دینے میں بغیر تثبت کے جلد باز ی کرتے ہیں ؛کیونکہ شریعتِ مطہرہ میں مصلحت سے یا بغیر مصلحت کسی بھی وجہ سے تصویر کا حلال ہو نا وارد نہیں ہے ۔اور اگر ان مسائل میں سے کسی مسئلہ میں جس میں کوئی نص نہ ہو ،سات علماء ایک قول پر اجماع کر لیں اور ان کی بات معقول بھی ہو تب بھی ان کا قول اجماع نہیں ہے جس کا ماننا لازم ہو ،بلکہ ان کے اور دیگر علماء کے اقوال کو دیکھا جائے گا اور ان کی بات قبول کی جائے گی ،جن کا قول کتاب اللہ و سنت سے موٴید ہو ۔(تحریم التصویر: ۲)

                دیکھیے کس قدر صفائی کے ساتھ اس فتوی کو شاذ اور مخالف احادیث قرار دیا ہے اور جمہور علماء کے نقطہٴ نظر سے ٹکرانے والا قرار دیا ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ حجاز و مصر کے جمہور علماء بھی حرمتِ تصویر پر متفق ہیں ۔

تصویر کے باب میں اختلاف کی حیثیت

                ہاں بعض علماء جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، انھوں نے ضرور عکسی تصویر کے متعلق جواز کا فتوی دیا ہے ، مگر اس کے بارے میں غور طلب بات یہ ہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف کی حیثیت و نوعیت کیا ہے ؟

                کیونکہ بنظرِ غائر مطالعہ سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ہر اختلاف ایک ہی درجہ کا نہیں ہوتا ، اور اس کی وجہ سے مسئلہ میں تخفیف نہیں ہوجاتی ، بلکہ اس میں بھی اختلاف کی نوعیت و حیثیت کا لحاظ رکھنا پڑے گا ،ورنہ غور کیجیے کہ ڈاڑھی منڈانے کے مسئلہ میں بھی مصریوں کا اختلاف ہے ،جمہور امت یہ کہتی ہے کہ حرام ہے جبکہ مصریوں نے اس کو جائز قرار دیا ہے ، حتی کہ جامعة الازھر کے بعض مفتیوں نے بھی اس کو صرف سنت کہتے ہوئے منڈانے کو جائز کہا ہے ۔ (دیکھو فتاوی الازھر :۲/۱۶۶)

                کیا اس کا کوئی اثر جمہور امت نے قبول کیا ؟اورکیا اس کی وجہ سے حرمت کے فتوے میں کوئی گنجائش برتی گئی ؟کیا یہاں بھی یہ کہا جاسکے گا کہ ڈاڑھی منڈانے کے مسئلہ میں چونکہ مصریوں کا اختلاف ہے ،اس لیے اس میں بھی شدت نہ برتی جائے اور منڈانے والوں کو گنجائش دی جائے، اور اگر امام لوگ بھی منڈائیں، تو ان پر بھی کوئی نکیر نہ کی جائے؟

                اسی طرح ربا یعنی سود کی حرمت ایک متفقہ امر ہے مگر چند برسوں سے بینکوں کے نظام کے تحت وصول ہو نے والے سود کو بعض لوگ جائز کہنے لگے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اور نزول قرآن کے وقت جو سود رائج تھا وہ ذاتی و شخصی ضروریات پر لیے جانے والے قرضوں کی بنیاد پر لیا جاتا تھا اور یہ واقعی ایک ظلم ہے ،لہٰذا وہ ناجائز ہے ،مگر بینکوں کے اس دور میں قرضے ذاتی ضرورت کے بجائے تجارتی ضرورت کے لیے لیے جاتے ہیں اور اس میں حرمتِ سود کی وہ علت نہیں پائی جاتی جو اُس دور میں تھی ،لہٰذا یہ بینکوں والا سود جائز ہے ۔ اور لکھنے والوں نے اس پر مضامین بھی لکھے اور کتابیں بھی لکھیں ،جیسے ایک صاحب نے ” کمر شیل انٹرسٹ کی فقہی حیثیت “ لکھی ہے ۔فرمائیے کہ کیا اس اختلاف کو بھی موٴثر ماناجائے گا ؟ اور اس کی وجہ سے سود کی حرمت بھی حدودِ جواز میں داخل سمجھی جائے گی اور اس میں سختی کرنا فعل مکروہ اور غیر دانشمندانہ کام ہو گا؟

                ایک اور مسئلہ سنیے کہ چاند کے ثبوت کا مدار شریعت نے رویت پر رکھا ہے ،نہ کہ فلکیاتی حسابات پر ، جمہور امت نے اسی کو اختیار کیا ہے ،اور اس سے ہٹ کر ایک طائفہ قلیلہ نے چاند کے ثبوت کے لیے فلکیاتی حسابات کو بھی معیار مانا ہے مگر اس کو علماء نے مذہب باطل قرارد یا ہے ۔

                اسی طرح گانا بجانا مزامیر کے ساتھ حرام ہے ،مگر اس میں علامہ ابن حزم ظاہری ، علامہ محمد بن طاہر المقدسی اور علامہ ابو الفرج اصفہانی نے اختلاف کیا ہے اور اس کو جائز قرار دیا ہے ۔اور بالخصوص آخری دو حضرات نے تو اس سلسلہ میں مواد فراہم کرنے کی بڑی کوشش کی ہے حتی کہ ابو الفرج نے اپنی کتاب ” الاغانی“ میں شرابیوں کبابیوں ، گویوں اور موسیقاروں کے حالات بھی خوب جمع کردئے ہیں مگر کیا اس اختلاف کو کسی بھی معتبر عالم و مفتی نے در خورِ اعتناء سمجھا اور گانے بجانے کی حرمت کو خفیف و معمولی قرار دیا ؟

                اسی طرح ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہوتی ہیں یا تین؟ اس میں جمہور امت کا موقف یہ ہے کہ تین طلاق تین ہی ہو تی ہیں خواہ مجلس ایک ہو یا الگ الگ ۔ مگرعلامہ ابن تیمیہ نے اس میں بعض حضرات صحابہ و ائمہ کے اختلاف کا ذکر کیا ہے ،اور امت کے علماء و عوام میں سے اہل حدیث و اہل ظواہر نے اسی کو اختیار کیا ہے اوروہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک قرار دیتے ہیں ،مگر جمہور امت نے اس کو قبول نہیں کیا ، بلکہ ہمیشہ فتوی اسی پر دیا گیا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی ہو تی ہیں ۔دیکھئے اختلاف ہو نے کے باوجد اس کا کوئی اثر حرمت کے فتوے پر نہیں پڑا ۔ کیا کسی معتبر عالم و مفتی نے اس اختلاف کے پیش نظر ایک مجلس کی تین طلاق میں ایک قرار دینے کی گنجائش دی؟

                اس کی ایک اور مثال لیجیے کہ اسلاف میں سے بعض بڑی اہم شخصیات سے متعہ کا جواز نقل کیا گیا ہے، جس کو جمہور امت نے قبول نہیں کیا ، اور بعد کے ادوار میں تو اس کی حرمت پر اجماع ہی ہو گیا ۔(دیکھو فتح الباری: ۹/۱۷۳)

                اسی طرح بعض بڑے بڑے صحابہ و ائمہ سے جواز وطی فی الدبر کا قول بھی منقول ہے ،اگرچہ کہ بعض کی جانب اس کا انتساب صحیح طور پر ثابت نہیں؛لیکن بعض حضرات جیسے ابن عمر سے اس کا بروایت صحیحہ ثابت ہونا، ابن حجر نے فتح الباری میں بیان کیا ہے؛لیکن حضرت ابن عباس نے ان کی بات کو وہم قرار دیا ہے ۔اسی طرح بعض نے امام مالک سے اس کا ثابت ہونا لکھا ہے ،اگرچہ کہ ان کے اصحاب اس کا انکار کرتے ہیں ۔(دیکھو تفسیر القرطبی: ۳/۹۳، الدر المنثور: ۲/۶۱۰-۶۱۲، فتح الباری: ۸/۱۹۰، عمدة القاری: ۲۶/۴۶۲)

                اس سے معلوم ہوا کہ ہر اختلاف ایک درجہ کا نہیں ، کہ اس کو اہمیت دی جائے اور اس کی وجہ سے مسئلہ میں خفت و ہلکا پن خیال کیا جائے؛لہٰذا جو حضرات اس کو ایک اختلافی مسئلہ قرار دیکر اس کی حرمت کو ہلکا سمجھتے یا سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ایک سعی لاحاصل میں لگے ہوئے ہیں۔

اختلاف سے فائدہ اٹھانے والوں کے لیے قابل غور بات

                لہٰذایہاں ان حضرات کے لیے جو اختلاف سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں دو باتیں قابل غور ہیں :

                ایک تو یہ کہ تصویر کو جائز کہنے والوں نے کسی مضبوط دلیل کی بنیاد پر جواز کو اختیار نہیں کیا ہے، بلکہ بعض احادیث کے سمجھنے میں غلط فہمی کا شکار ہو کر جواز کی بات کہی ہے۔ اور وہ غلط فہمی کیا ہے؟ اس کا ذکر اس رسالہ میں علماء کے فتاوی سے معلوم ہو جائے گی؛لہٰذا کسی غلط فہمی کی بنیاد پر اختلاف کو دلیل کی بنیاد پر اختلاف کے درجہ میں سمجھنا ایک اصولی غلطی ہے۔اس اختلاف کی مثال ڈاڑھی منڈانے میں اختلاف سے دی جا سکتی ،جس کو محض ایک غلط فہمی کہا جا سکتا ہے؛لہٰذا ان مجوزین کا قول ایک شاذ قول کی حیثیت رکھتا ہے، جس کو معمول بہ بنانا اور اس پر عمل در آمد کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ بالخصوص اس صورت میں جب کہ جواز کے دلائل کے ضعف و کمزوری کو حضرات علماء نے واضح کر کے حقیقت سے پردہ اٹھا دیا اور جائز قرار دینے والوں کی غلط فہمی کو دور کردیا ہے ۔

                دوسری بات قابل غور یہ ہے کہ جوازِ تصویر کے قائلین اور حرمتِ تصویر کے قائلین ان دونوں کے علمی و عملی مقام و حیثیت اوران کے تفقہ و دیانت کے معیار میں محاکمہ کیا جائے تو حرمت کے قائلین کے لحاظ سے جواز کے قائلین کا کوئی خاص مقام و حیثیت نہیں معلوم ہو تی ۔ ایک جانب حرمت تصویر کے قائلین میں اپنے زمانے کے آسمانِ علم و عمل کے آفتاب و مہتاب فقہاء نظر آئیں گے ،جن کے علم و عمل ، تقوی وطہارت ،تفقہ و بصیرت ، ثقاہت و دیانت اہل اسلام کے نزدیک مسلمات میں سے ہیں،تو دوسری جانب جواز کے قائلین وہ حضرات ہیں، جن میں سے بیشتر کو عام طور پر جانا پہچانا بھی نہیں جاتا اور اگر جانا پہچانا جاتا ہو تو ان کا مقام و درجہ فتوی و فقہ کے بارے میں وہ نہیں جو پہلے طبقے کے لوگوں کو حاصل ہے؛ لہٰذا ان دونوں میں سے کیا ان کا فتوی قابل عمل و لائق توجہ ہونا چاہیے جن کی شان تفقہ و افتاء اور ،جن کی ثقاہت و عدالت مسلم ہے یا ان کا جن کو یہ درجہ حاصل ہی نہیں ؟ اس پر غور کیا جائے ۔

                ایک اور بات قابل توجہ یہ ہے کہ اس مسئلہ میں اگرچہ اختلاف ہوا ہے ؛ مگر فتوی کے لیے علماء نے حرمت ہی کے قول کو ترجیح دی ہے ،ہندوستان و پاکستان کے بارے میں تو سبھی جانتے ہیں کہ یہاں کے علماء نے ہمیشہ اس کے عدم جواز ہی کا فتوی دیا ہے ،اور اسی طرح عرب دنیا میں بھی یہی صورت حال ہے ،سعودی عرب کے ایک عالم شیخ ولید بن راشد السعیدان نے ” حکم التصویر الفوتوغرافی“ میں لکھا ہے کہ عکسی تصویر کے بارے میں اختلاف ہے ، بعض نے اس سے منع کیا ہے اور یہ حضرات اکثر ہیں اور اسی قول پر سعودی عرب کے اندر فتوی ہے ۔ (حکم التصویر الفوتوغرافی:۱۱)

                جب فتوی حرمت پر ہے تو اس سے اعراض کرنا اور اس کے خلاف کو ترجیح دینا چہ معنے دارد ؟ یہ بات قابلِ غور ہے ؛کیونکہ بلا وجہ مفتی بہ قول کو چھوڑ کر شاذ قول پر عمل کرنا صحیح نہیں ہے ۔

                الغرض تصویر کے مسئلہ میں جب ایک جانب جمہورِ امت ہے اور اس کے اساطین و ائمہ ہیں اور وہ سب کے سب تقریباً اس کی حرمت پر متفق ہیں ،اور جمہور کے نزدیک مجوزین کی رائے غلط فہمی کا نتیجہ اور بے دلیل ہے ،اور پھر جمہور نے ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ کردیا اور حق کو دلائل کی روشنی میں واضح کردیا ہے ،تو ان کے قول سے گریز کرنا اور ایک چھوٹی سی جماعت کے قول ہی کو ترجیح دینا کس بنیاد پر ہے؟ کیا جمہورِ امت کا موقف اس لائق نہیں کہ اس کو ترجیح دی جائے ؟بلکہ جمہور علماء عرب و عجم کی بات کو قبول نہ کر کے ایک شاذ قول کا اس قدر احترام کرنا کہ گویا وہی صحیح ہے اور حرمت کا قول گویا باطل و غلط ہے ،کیا یہ طرزِ عمل کسی صالح معاشرے و نیک ذہن کی پیداوار ہے یا کسی بیمار ذہنیت کا نتیجہ ؟ امام حدیث عبد الرحمن بن مھدی نے اسی لیے فرمایا کہ: ”لاَ یَکُونُ اِمَالاً في الْعِلْمِ مَنْ أَخَذَ بِالشَّاذِ مِنَ الْعِلْمِ“ (جو شخص علماء کے شاذ قول کو لیتا ہے وہ علم کی دنیا میں امام نہیں ہو سکتا ) (جامع بیان العلم: ۲/۴۸)

مسئلہٴ تصویر میں جمہور علما کی شدت

                پھر یہاں ایک اور بات قابلِ لحاظ ہے کہ اگر مسئلہ ٴ تصویر ایک اختلافی مسئلہ ہو نے کی وجہ سے اس میں شدت بلکہ اس پر نکیر کوئی غلط بات ہو تی تو جمہور علماء امت نے اس پر کیوں نکیر کی اور پوری شدت سے کی ؟ چنانچہ علماء عرب و عجم نے تصویر کو جائز قرار دینے والوں پر جس قدر شدت برتی ہے ، اس سے بھی یہ بات واضح ہو تی ہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف کی وہ حیثیت نہیں جو مسائل اختلافیہ کو حاصل ہے ورنہ ان حضراتِ اکابر کا یہ شدت برتنا جائز نہ ہو تا ؛کیونکہ علماء نے تصریح کی ہے کہ مسائلِ اختلافیہ میں ایک دوسرے پر اعتراض جائز نہیں اور یہاں صورت حال یہ ہے کہ جواز کے قول کی سختی سے تردید کی گئی ہے ۔ جس کے نمونے اس رسالہ میں موجود اکابرین کے فتاوی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

                مثلا علامہ شیخ ابن باز نے بعض فتاوی میں لکھا ہے کہ: ” ہم نے جواب میں جو احادیث اور اہلِ علم کا کلام نقل کیا ہے، اس سے حق کے متلاشی پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لوگ جو کتابوں ،مجلوں ،رسالوں اورجریدوں میں جاندار کی تصویر کے سلسلہ میں وسعت برت رہے ہیں، یہ واضح غلطی اور کھلا ہوا گناہ ہے ۔“ (فتاوی شیخ ابن باز: ۴/۱۷۹-۱۸۹)

                مفتی علامہ شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ نے لکھا ہے کہ:

                ” جس نے یہ خیال کیا کہ شمسی تصویر منع کے حکم میں داخل نہیں اور یہ کہ منع ہونا مجسم صورت اور سایہ دار چیزوں کی تصویر کے ساتھ خاص ہے، تو اس کا خیال باطل ہے۔“ (فتاوی و رسائل شیخ محمدبن ابراہیم :۱/۱۳۴)

                اللجنة الدائمة کے ایک فتوی میں لکھا ہے کہ :

                ”انسان و حیوان وغیرہ جاندار چیزوں کی شمسی وعکسی تصویر لینا اور ان کو باقی رکھنا حرام ہے؛ بلکہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔“(فتاوی اللجنة الدائمة : ۱/۴۵۹،رقم الفتوی:۱۹۷۸)

                اورعلامہ شیخ عبد الرحمن بن فریان ”شمسی تصویر کی حرمت“ پر تفصیلی کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

          ”وَلاَ تَغْتَرِّ اَیُّھا الْمُسْلِمُ بِمَنْ تَنَطَّعَ بِمَعْسُولِ الکلامِ وَقَامَ یُحَلِّلُ ویُحَرِّمُ، بِغَیْرِ دَلِیلٍ وبرھانٍ، بل بمجردِ الرأي والھذَیانِ، مِنْ بَعْضِ مُتَعَلِّمَةِ ھذہ الأزمان، وأجاز الصُّوَرَ الضَوْئِیَّة وجَعَلَ المَنْعَ خَاصًا بِما لَہ أجسامٌ، سبحان اللہ! مِنْ أینَ ھذا التفریقُ وَلَمْ یَجِیْ لاَ فِي سُنَّةٍ وَلاَ قرآنٍ“․

(اے مسلم ! تو اس زمانے کے بعض علم کی جانب منسوب لوگوں سے دھوکہ نہ کھانا جو چکنی چپڑی باتیں کرتے اور بلا دلیل و برہان ، محض اپنی رائے اور بکواس سے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر تے ہیں ، اور عکسی تصویر کو جائز قرار دیتے اور منع کو صرف ان تصویروں سے خاص کرتے ہیں جو مجسمہ کی شکل میں ہوں ۔ سبحان اللہ ! یہ فرق کہاں سے آیا ؟ جب کہ نہ تو سنت میں یہ فرق آیا اور نہ قرآن میں آیا ؟ )

                پھر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ:

          ”فَیْجِبُ عَلی المُسْلِمِیْنَ انْکَارُ ھَذا المُنْکَرِ وَلاَ یَجُوْزُ لَھُمْ السُّکُوتُ وَلاَ یُغترّ بِفَشْوِہ وروَاجِہ فَاِنَّ المُنکَرَ ھو بحالہ منکَرٌ کما ھو في الشَرْعِ ولا یُحِلّلہ کثرتُہ و رواجُہ ولا محبةُ البعض وارتکابُہ“․ (الدر السنیة: ۱۵/۲۳۴)

(لہٰذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اس منکر پر انکار و نکیر کریں اور اس پران کی خاموشی جائز نہیں ہے، اور تصویر کے رواج اور عام ہو جانے سے دھوکہ نہ کھایا جائے؛کیونکہ منکر تو ہر حال میں منکر ہے ،اس کا عام ہو جانا اور رواج پاجانا اس کو حلال نہیں کر دیتا اور نہ بعض لوگوں کی اس سے محبت اور اس کا مرتکب ہو نا اس کو جائز کر تا ہے)

                قابلِ غور یہ ہے کہ اگر تصویر کے مسئلہ میں اختلاف اس درجہ کا ہوتا جو مختلف فیہ مسائل میں ہوتاہے تو کیا اس قدر شدت کا جواز تھا ، جو ان حضرات نے اختیار کیا ہے ، اور تصویر کو حرام؛ بلکہ گناہ کبیرہ قرار دیا ہے اور جواز کے قائلین کو کھلی غلطی و واضح گناہ پر ٹھیرایا ہے ؟اور اہل اسلام کو اس پر انکار و نکیر کرنا ضروری قرار دیا ہے اور خاموشی کو ناجائز کہا ہے اور اس کے عام ہو جانے اور رواج پا جانے کو بے اثر ٹھیرا یا ہے ؟ نہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ اس اختلاف کو وہ حضرات کوئی قابلِ لحاظ ہی نہیں مانتے تھے ۔

                 اسی طرح ہند و پاک کے علماء کا بھی رویہ رہا ہے ،ایک دو حضرات کے اس سلسلہ میں فتاوی نقل کردینا اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی نے ایک اسکول کے جلسہ (جس میں تصویر لی جاتی ہے )کے بارے میں سوال پر لکھا ہے کہ:

                ”یہ معصیت کی مجلس ہے، جس میں شرکت قطعاًجائز نہیں؛ بلکہ دورانِ مجلس اس قسم کی حرکت شروع ہو تب بھی روکنے کی قدرت نہ ہونے والے ہر شخص پر اٹھ جانا واجب ہے “، نیز لکھا کہ تصویر سازی شریعت کی رو سے ایک کبیرہ گناہ ہے ۔ نیز فرماتے ہیں کہ: انتہائی قلق کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ تصویر کی لعنت عوام سے تجاوز کرکے خواص؛ بلکہ علماء تک پھیل گئی ہے جس کا افسوسناک نتیجہ سامنے آرہا ہے کہ بہت سے لوگ ان حضرات کے اس طرزِ عمل کو دیکھ کر اس قطعی حرام کو حلال باور کرنے لگے۔ (احسن الفتاوی: ۸/۴۱۷، ۴۱۸،۴۳۴)

                پاکستان میں ایک جگہ ایک مسجد میں رمضان میں ختم قرآن کے موقعہ پرجلسہ ہوا ، اس میں ایک وہیں کے مدرس صاحب نے جلسہ کی تصاویر لیں ،لوگوں کے منع کرنے پر اس نے بتایا کہ یہ ریل امام صاحب نے بھروائی ہے ، اور ان ہی کی اجازت سے تصویر لے رہا ہوں ، اور ایسا سب جگہ ہوتا ہے ، الغرض اس نے ضد میں تصاویر کھینچیں اور خود ان امام صاحب کے مائک پر آنے پر ان کی بھی تصاویر لیں ، ااس واقعہ کا ذکر کر کے کسی نے حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی سے سوال کیا تو اس کے جواب میں حضرت نے لکھا ہے کہ :

”تصویریں بنانا خصوصاً مسجد کو اس گندگی کے ساتھ ملوث کرنا حرام اور سخت گناہ ہے۔ اگر یہ حضرات اس سے علانیہ توبہ کا اعلان کریں اور اپنی غلطی کا اقرار کر کے اللہ تعالی سے معافی مانگیں تو ٹھیک ہے ،ورنہ ان حافظ صاحب کو امامت سے اور تدریس سے الگ کر دیا جائے ۔اور ان کے پیچھے نماز ناجائز اور مکروہِ تحریمی ہے“ (آپ کے مسائل اور ان کاحل : ۷/۶۱)

                اسی طرح علماء و بزرگان کی آئے دن اخبارات میں شائع ہو نے والی تصاویر کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: تصویر بنانا اور بنوانا گناہ ہے؛ لیکن اگر قانونی مجبوری کی وجہ سے ایسا کرنا پڑے تو امید ہے کہ مواخذہ نہ ہوگا۔ باقی بزرگان دین نے اول تو تصویریں اپنی خوشی سے بنوائی نہیں، اور اگر کسی نے بنوائی ہوں تو کسی کا عمل حجت نہیں ،حجت خدا و رسول ﷺ کا ارشاد ہے ۔ (آپ کے مسائل: ۷/۶۲)

                ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : فلم اور تصویر آنحضرت ﷺ کے ارشاد سے حرام ہے ، اور ان کو بنانے والے ملعون ہیں ۔ (آپ کے مسائل:۷/۶۷)

                 پاکستان کے وزیر خارجہ سردار آصف احمد نے ایک بیان میں کہا تھا کہ: اسلام میں رقص وموسیقی اور تصویر سازی پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔ اس کا رد کرتے ہوئے آپ نے اولاً ان امور کے بارے میں احادیث نقل کیے ہیں پھر لکھا ہے کہ : آنحضرت ﷺ کے ارشادات کے بعد سردار آصف احمد کا یہ کہنا کہ اسلام میں ان چیزوں پر کوئی پابندی نہیں ،قطعاً غلط وخلافِ واقعہ ہے اور ان کے اس فتوی کا منشأ یا تو ناقص مطالعہ ہے یا خاکم بدہن صاحب شریعت ﷺ سے اختلاف ہے ۔ پہلی وجہ جہل مرکب اور دوسری وجہ کفرِ خالص ۔(آپ کے مسائل:۷/۷۶)

                علماء کی تصاویر اور ان کا ٹی وی پر آنا عوام کو یا تو بے چین کرتا ہے یا یہ کہ وہ اس سے اس کے جواز پر استدلال کرتے ہیں ، ایک صاحب نے آپ سے جب اس سلسلہ میں علماء کے فعل کا حوالہ دیا تو جواب لکھا کہ :

”یہ اصول ذہن میں رکھیے کہ کہ گناہ ہر حال میں گناہ ہے ،خواہ ساری دنیا اس میں ملوث ہو جائے ۔ دوسرا اصول یہ بھی ملحوظ رکھیے کہ جب کوئی برائی عام ہوجائے تو اگرچہ اس کی نحوست بھی عام ہو گی ؛مگر آدمی مکلف اپنے فعل کا ہے ۔ پہلے اصول کے مطابق علماء کا ٹی وی پر آنا اس کے جواز کی دلیل نہیں ، نہ امامِ حرم کا تراویح پڑھانا ہی اس کے جواز کی دلیل ہے ،اگر طبیب کسی بیماری میں مبتلا ہوجائیں تو بیماری بیماری ہی رہے گی ، اس کو صحت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔(آپ کے مسائل:۷/۸۱)

                ان فتاوی پر غور کیجیے کہ کیا ایک اختلافی مسئلہ پر کسی کو ملعون کہنا ،اور اس کام کے ارتکاب پر امامت سے ہٹانے کی تجویز رکھنا بلکہ اس کا فتوی صادر کرنا صحیح ہو سکتا ہے ،اگر نہیں اور یقینا نہیں تو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اس مسئلہ کی وہ نوعیت نہیں جو اختلافی مسائل کی ہو تی ہے؛بلکہ ان حضرات علماء کے نزدیک اس مسئلہ میں اختلاف غلط فہمی کا نتیجہ ہے ،نہ یہ کہ اس کی بنیاد دلائل ہیں ۔

مجوزین کی ایک لچر دلیل کا جواب

                یہاں یہ ذکر کر دینا بھی مناسب ہے کہ موجودہ دور کے مجوزّین ِتصویر میں سے بعض کو سنا گیا کہ وہ دلیل جواز یہ دیتے ہیں کہ آج کل تصویر کا عام رواج ہو چکا ہے ، کوئی محفل و مجلس اس سے خالی نہیں ، عوام تو عوام علماء بھی لیتے ہیں ،تو کب تک اس کو ناجائز کہتے رہیں گے ؟ ابھی قریب میں ہمارے مدرسہ میں ایک مفتی صاحب کا ورود ہوا، میں تو سفر پر تھا ،لہٰذا ملاقات نہیں ہوئی ،دیگر اساتذہ کے درمیان انھوں نے یہ باتیں کہیں ،اور تصویر کو ناجائز کہنے والوں پر طنز و تعریض کی ۔

                مگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو پھر تمام حرام کاموں کو جائز ہو جانا چاہیے ؛کیونکہ آج شراب بھی عام ہے ،موسیقی و گانا بجانا بھی عام ہے ، موبائیل فون سے گانے بجانے کی ٹیون ہم نے علماء کو بھی رکھتے دیکھا ہے ،اور بے پردگی بھی عام ہے ، سود و جوا بھی عام ہے،اور رشوت خوری کا بھی خوب چلن ہے؛بلکہ غور کرنا چاہیے کہ کونسا گناہ ایسا ہے جو آج کے معاشرے میں رواج نہیں پا رہا ہے ،لہٰذا یہ سب کے سب حرام کام اس لیے جائز ہو جانا چاہیے کہ ان کا رواج عام ہو گیا ہے ،لہٰذا کب تک اس کو حرام کہتے رہیں؟ لا حول ولا قوة الاباللہ ،اگر یہ مفتیانہ منطق چل جائے تو اسلام کا خدا ہی حافظ !              

                یہاں ان مفتی صاحب کی دلیل کے جواب میں صرف یہ بات کافی ہے کہ ہم حضرت اقدس مفتی محمد شفیع صاحب علیہ الرحمة کے رسالہ ” گناہ بے لذت“ سے ایک عبارت نقل کیے دیتے ہیں ،بغور ملاحظہ کیجیے: حضرت لکھتے ہیں کہ:

                ”آج کل یہ گناہ اس قدر وباء کی طرح تمام دنیا پر چھا گیا ہے کہ اس سے پرہیز کرنے والے کو زندگی کے ہر شعبے میں مشکلات ہیں ،ٹوپی سے لے کر جوتے تک کوئی چیز بازارمیں تصویر سے خالی ملنا مشکل ہوگیا ہے ،گھریلو استعمال کی چیزیں ،برتن ،چھتری ،دیا سلائی، دواوٴں کے ڈبے اور بوتلیں اخبارات ورسائل یہاں تک کہ مذہبی اور اصلاحی کتابیں بھی اس گناہِ عظیم سے خالی نہ رہیں، فالی اللہ المشتکی! اور غور کیا جائے تو ان میں سے اکثر حصہ تصاویر کا محض بے کار وبے فائدہ، گناہِ بے لذت ہے ، مسلمان کو چاہیے کہ گناہ کے عام ہوجانے سے اس کو ہلکا نہ سمجھے؛ بلکہ زیادہ اہمیت کے ساتھ اس سے بچنے اور دوسرے مسلمانوں کو بچانے کی فکر کریں“ ۔(گناہ بے لذت: ۵۲)

                حضرت مفتی محمد شفیع صاحب جیسے اپنے زمانے کے مفتیِ بے مثال تو تصویر کے عام ہو جانے کے باوجود یہ کہتے ہیں کہ: عام ہو جانے سے دھوکہ نہ کھائیں اور اس کو ہلکا نہ سمجھیں؛ بلکہ اس سے مسلمانوں کو بچانے کی فکر کریں اور یہ جدید الخیال و روشن خیال مفتی صاحب یہ کہتے ہیں کہ جب یہ عام ہو گئی تو اب حرام کو حرام نہیں؛ بلکہ حلال کہو۔ فیا للعجب!

$           $           $

—————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 8-9 ، جلد: 95 ‏، رمضان — شوال 1432 ہجری مطابق اگست — ستمبر 2011ء

Related Posts