بزرگوں سے اصلاحی تعلق قائم کیجیے!

از: مفتی تنظیم عالم قاسمی

استاذ حدیث دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث کا ایک مقصد قرآن کریم نے تزکیہٴ قلب بیان کیا ہے، ارشاد باری ہے ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّيينَ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہ ویُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ․ (سورہ جمعہ، آیت:۲) ”وہی ہے وہ ذات جس نے ان پڑھوں میں انہی میں کا ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کو پڑھ کر سناتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔“

تزکیہٴ قلب دل کی پاکی کو کہا جاتا ہے یعنی انسان کے دل ودماغ کو بے حیائی اور دنیوی آلائشوں سے پاک کرکے اس میں خوفِ آخرت اور اللہ کی محبت پیدا کی جائے، عام طور پر انسانی نفوس کا رجحان ان چیزوں کی طرف ہوتا ہے جو شریعت کے خلاف ہیں، جن میں نفس کو لطف اور مزہ آتا ہے، ان رجحانات کو موڑ کر نفس کو رشد وہدایت اور خیر پر لگانے کی محنتوں کو تصوف وسلوک اور تزکیہ سے تعبیر کیاجاتاہے، شریعت میں تزکیے کی بڑی اہمیت ہے، اس لیے کہ اگر انسان کا دل پاک ہوجائے، سوچ وفکر قرآنی اصول کے سانچے میں ڈھل جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرہ صالح اور نیک نہ ہو، زناکاری، شراب نوشی، ظلم وزیادتی، چوری، ڈاکہ زنی اور ہزار طرح کے جرائم اس لیے وجود میں آتے ہیں کہ دل میں اللہ کا خوف ہے اور نہ آخرت پر یقین، خدا کی قدرت اور وجود کا تصور بلاشبہ بڑے سے بڑے گناہ کے عادی انسان کے ہاتھوں غیرمرئی ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں لگادیتا ہے، پھر وہ اس طرح سنور جاتا ہے کہ رات کے سناٹے میں بھی اس کا ذہن کسی برائی کی طرف نہیں جاتا، دولت کے خزانے میں بھی رہ کر دل میں خیانت کا تصور نہیں آتا۔ بے حیائی کے تمام اسباب ووسائل موجود ہوں، پھر بھی طبیعت اس پر آمادہ نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ قرآن نے تزکیہٴ قلب پر بڑا زور دیا ہے۔ سورہ الاعلیٰ آیت ۱۴ میں ارشاد فرمایاگیا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی ”تحقیق کہ وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اپنا تزکیہ کیا“ یہی مفہوم سورئہ الشمس آیت ۹ میں ان کلمات میں بیان کیاگیا  قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہَا ”بلاشبہ وہ آدمی کامیاب ہوگیا جس نے اپنے نفس کو سنوارا اور ناکام ہوا جس نے اس کو خاک میں ملایا یعنی خواہشات نفس کی پیروی کی“ ان دونوں آیات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کامیابی اور فوز وصلاح تزکیہٴ قلب کے ساتھ مربوط ہے، دل پاک وصاف ہے تو اخروی نعمتیں استقبال کریں گی، دنیا میں سکون واطمینان، رعب و دبدبہ، عزت اور بلند مقام تو حاصل ہوگا ہی اسی کے ساتھ جنت کی ابدی راحت رساں چیزیں سامنے حاضر ہوں گی، وہ جب اور جس طرح چاہے گا کھائے گا اور مزے لے گا، اللہ کی رضامندی اس کو مکمل طور پر حاصل ہوگی۔

عرب قوم جس کے درمیان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تھی، پلے، بڑھے اور جوان ہوئے یقینا وہ ایک خونخوار اور جنگ جو قوم تھی، تہذیب وتمدن سے نابلد، برائیوں کے خوگر، معرفت الٰہی سے کوسوں دور اور طبیعت کے اعتبار سے انتہائی سخت اجڈ اور گنوار تھی، نبی اکرم  صلى الله عليه وسلم کی نظر کرم نے ان کو ایسا بدلا کہ ساری دنیا کے لیے وہ ہدایت کے چراغ بن گئے، جو پہلے گنوار تھے مہذب بن گئے، مشرک تھے موحد ہوگئے، سخت تھے نرم ہوگئے، جو پہلے بے حیثیت تھے وہ دنیا کے امام بن گئے، حضرت ابوبکر صدیق کو صدیقیت کا مقام نہ ملتا اگر رسول اکرم  صلى الله عليه وسلم کی معیت نصیب نہ ہوتی، حضرت عمر فاروق کو فاروق، حضرت عثمان غنی کو غنی اور ذوالنورین (دوروشنی والے) اور حضرت علی کو شیرخدا کا خطاب اور اعزاز رسولِ رحمت  صلى الله عليه وسلم کی صحبت اور محبت کا اثر ہے، حضرت بلال حبشی اور حضرت سلمان فارسی عرب کے باہر سے تشریف لائے، کوئی تعارف اور سناشائی نہیں، پہلے غلام تھے لیکن اللہ اور اللہ کے رسول  صلى الله عليه وسلم کی محبت وصحبت نے انہیں وہ مقام عطا کیا کہ تمام مسلمانوں کے وہ چہیتے اور سردار بن گئے۔ بقول کسی شاعر۔

خود نہ تھے جو راہ پہ اوروں کے ہادی بن گئے

کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا

نبی اکرم  صلى الله عليه وسلم کے بعد صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور پھر اولیاء اللہ اور بزرگانِ دین کی مجالس اور صحبت میں وہ تاثیر پائی جاتی ہے جس سے سخت سے سخت انسان کا دل بھی موم بن جاتا ہے، اللہ کا خوف اور آخرت کی تڑپ پیدا ہوتی ہے، انسانوں کے اندر تکبر ہے، حسد ہے، بغض ہے، حب دنیا ہے، آخرت سے بے فکری ہے، گناہوں سے دلچسپی ہے، اس طرح کے تمام گندے اوصاف شیطانوں کے مکروفریب اور ان کے بہکاوے سے پیدا ہوتے ہیں، صلحاء اور بزرگان دین مدتوں ریاضت سے جن کے نفوس منجھے ہوئے ہوتے ہیں، وہ شیطان کے مکروفریب کو اچھی طرح جانتے ہیں، ان بزرگوں کی صحبت جو اختیار کرتا ہے اور ان کے توسط سے جو ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہے یہ نفوسِ قدسیہ ان کو شیطان اور نفس سے بچنے کی تدبیریں بتاتے ہیں، اگر ان کی ہدایات پر عمل کیا جائے تو بہت جلد نفس کے عیوب اور رزائل کا ازالہ ہوجاتا ہے اور ان کی فیض صحبت سے انسان اخلاقِ فاضلہ، معرفت الٰہی، خوفِ خدا، آخرت کی طرف رغبت کی صفات سے متصف ہوتا ہے۔ پھر وہ کہیں بھی رہے اللہ کی قوتِ گرفت کا احساس ہمیشہ ساتھ رہتا ہے اس کو صوفیا کی اصطلاح میں تصوف وسلوک کہا جاتا ہے۔

تصوف وسلوک اور تزکیہٴ قلب دونوں ایک چیز ہے، جب دل پاک ہوگا تو خود بخود اللہ کی طرف میلان بڑھے گا، خدا سے قرب دل کی صالحیت پر موقوف ہے، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا سے کسی نے پوچھا کہ یہ تصوف کیا بلا ہے؟ حضرت نے فرمایا: اس کی ابتدا ”انما الأعمال بالنیات“ (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے) سے ہے اور انتہا ”أن تعبد اللّٰہ کأنَّک تراہ“ (اللہ کی اس طرح عبادت کرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو) پر ہے، بظاہر یہ صرف دو جملے ہیں مگر تصوف وسلوک کا خلاصہ اس میں بیان کردیاگیا ہے۔ یعنی انسان ہزار عمل کرے، اگر نیت درست نہیں ہے تو کوئی بھی عمل مفید نہیں، اس لیے تصوف کے طالب علم کو سب سے پہلے تصحیح نیت کی ترغیب دی جاتی ہے، یہاں سے اس کے سفر کا آغاز ہوتا ہے، جب نیت درست ہوگئی تو اللہ کی رحمتوں کا نزول شروع ہوجاتا ہے، معرفت الٰہی کا یہ راستہ انسان کو اس مرتبہ تک پہنچادیتا ہے کہ عبادت کرتے ہوئے معبود کو گویا وہ اپنی نظروں سے دیکھ رہا ہے،کسی کو جب یہ مقام حاصل ہوجائے تو پھر اس کی شرافت وسعادت کا کیا کہنا، تصوف کا مقصود اصلی شریعت پر چلنا ہے، شریعت کو چھوڑ کر طریقت کی کوئی حیثیت نہیں، حضرات مشائخ نے جو اصلاح نفس کے لیے کچھ تدبیریں اور طریقے تجویز کیے ہیں یہ مقاصد نہیں، وسائل ہیں، ان کی صحبت اور نظروں میں رہ کر آدمی کامل انسان بنتا ہے جس کا خدا نے حکم دیا ہے اور شریعت میں جو مطلوب ومقصود ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ پہلے کے مقابلے میں آج مصروفت بڑھتی جارہی ہے، وقت تنگ ہوگیا ہے، لوگوں کو اتنی فرصت نہیں کہ ازخود تصوف وسلوک کی راہ پر چل کر کامیابی حاصل کریں، یہ ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ اہل دل علماء صلحاء اور اولیاء اللہ سے اصلاحی تعلق قائم کیا جائے، ان کی رہنمائی اور قرآن وسنت کی روشنی میں دئیے گئے خطوط پر عمل آوری سے ایک شخص بہت جلد اس راہ کی مسافت کو طے کرسکتا ہے۔ جب بھی وقت ملے فرصت پاکر بزرگان دین کی مجالس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اللہ کے ولی کا اللہ سے بڑا قرب ہوتا ہے، ان کے مجاہدہ وریاضت کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کی مجالس، صحبت اور نظروں میں تاثیر رکھی ہے، جو محض مطالعہ، وعظ وتقریر، مال وزر یا شخصی محنت سے حاصل نہیں ہوسکتی، مشہور شاعر اکبر الٰہ آبادی نے اس مفہوم کو اس طرح ادا کیاہے۔

نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا

دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

پاکستان کے مشہور عالم دین حضرت مولانا حکیم محمداختر صاحب زیدمجدہ نے ایک موقع پر فرمایا:

”آج ہمارا حال مختلف ہے، اللہ والوں کی مجلس ے ہم بھاگتے ہیں، ہم جس ماحول میں رہتے ہیں وہ گناہ وعصیان کا ماحول ہے، گردوپیش سے عام انسان تو عام انسان ہے، ”ولی“ بھی متاثر ہوجاتا ہے، سنیما اور گانوں کی آواز، دنیا کی فحاشی یہ سب کچھ انسان کو متاثر کرتے ہیں۔ صحابہ کا عادوثمود کی بستی سے جب گزر ہوا تو حضور  صلى الله عليه وسلم نے منہ چھپالیا اور صحابہ کو جلدی سے گزرجانے کے لیے فرمایا، دیکھئے ماحول کا اثر، حضور  صلى الله عليه وسلم کی نگاہ میں کس قدر اہمیت کا حامل ہے، اگر اثر کا خوف نہ ہوتا تو جلدی سے کیوں گزرتے؟ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ برے ماحول سے کٹ کر اللہ والوں کی مجلس میں بیٹھو، نورانیت پیداہوگی اور اچھے اثرات پڑیں گے۔ (باتیں ان کی یاد رہیں گی صفحہ ۳۵، از مولانا محمد رضوان القاسمی)

یہ واقعہ ہے کہ انسان جس طرح کی صحبت اختیار کرتا ہے، مزاج، طبیعت، رجحان ویسے ہی بن جاتے ہیں، بزرگوں کی صحبت میں اگر کوئی مکمل بزرگی اختیار نہ بھی کرے، پھر بھی کچھ دیر کے لیے ہی سہی ضرور اس کے دل میں آخرت کی فکر پیدا ہوگی، اسے اپنے گناہوں پر شرمندگی محسوس ہوگی اور دل میں اللہ کا خوف پیدا ہوگا، بزرگوں کی نظر میں وہ کیمیائی اثر ہے جو بہت جلد انسان کو متاثر کرتا ہے، گنہگار اپنے گناہوں سے توبہ کرلیتے ہیں اور نیکوکار کی رفتارِ عمل دوچند ہوجاتی ہے۔ حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب نے اس کی چار وجوہات بیان کی ہیں جو یقینا پڑھنے کے قابل ہیں۔ ایک موقع پر فرمایا: اہل اللہ کی صحبت اختیار کیجئے ان کی صحبت بابرکت سے چار وجہوں سے فیض حاصل ہوتا ہے:

(۱) پہلی وجہ نقل ہے، یعنی انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے نقال واقع ہوا ہے، جب آپ اہل اللہ کی صحبت میں رہیں گے اور شب وروز ان کے طریقہٴ مناجات، ان کے طریقہٴ فریاد ان کے آداب واخلاق اور خدا کے حضور ان کے رونے اور گڑگڑانے اور نالہٴ نیم شبی کو دیکھیں گے تو ممکن نہیں کہ آپ ان صفاتِ عالیہ کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش نہ کریں۔ آپ کی نقال طبیعت یقینا ان اعمال میں نقل کی سعی کرے گی۔

(۲) دوسری وجہ صحبت کی عام برکت ہے۔ اگر کوئی اہل اللہ کی صحبت میں بغیر کسی خاص ذہن وفکر کے آئے اور کوئی غرض بھی ہو جب بھی وہ اس کی برکت محسوس کرے گا۔ اور آہستہ آہستہ ان کی مقناطیسی شخصیت اپنی طرف کھینچتی رہے گی۔

(۳) تیسری وجہ معرفت ہے۔ یعنی ان کی صحبت سے اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ نفس اور شیطان سے مقابلہ کرتے ہوئے اسے کس طرح مغلوب کیا جائے؟ ان کی صحبت سے اس کا فن آتا ہے۔ نفسانی اور شیطانی مکروفریب سے ایک انسان خوب واقف ہوجاتا اور ان سے بچنے کی تدبیروں سے اچھی طرح آگاہ ہوجاتا ہے۔

(۴) چوتھی وجہ دعا ہے، یعنی یہ جہاں ساری اُمت کے لیے دعا کرتے ہیں وہاں خصوصیت کے ساتھ اپنے متعلقین اور مردوں کے لیے دعا کرتے ہیں۔ بارگاہِ الٰہی میں ان کی مخلصانہ دعا بہرحال قبولیت کی تاثیر رکھتی ہے۔

ان چار وجوہ کے علاوہ مولانا رومی ایک اور وجہ بیان کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ دلوں میں سے دلوں میں خفیہ راستے ہوتے ہیں۔ غیرمرئی طور پر اللہ والوں کے دلوں کی ایمانی طاقت ان کے ہم نشینوں پر اثر کرتی ہے۔ اور ان کے طاقتور یقین کا نور ان کے جلیسوں کے ضعیف اور کمزور یقین کو توانائی بخشتا اور نورانی بناتا رہتا ہے۔

مولانا رومی اس کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دیکھو، دو چراغ ہوتے ہیں، ان کا وجود اور جسم ایک دوسرے سے الگ ہوتا ہے مگر فضاء میں دونوں کے نور ایک ہوتے ہیں، ان میں کوئی علیحدگی نہیں ہوتی اسی طرح اللہ والے کا جسم اور تمہارا جسم تو الگ الگ ہے مگر ان کے دل کا نور تمہارے ضعیف نور کو کامل کردے گا اور درمیان میں جسم حائل نہیں ہوسکے گا۔ (باتیں ان کی یادرہیں گی صفحہ ۱۳۸)

لیکن واضح رہے کہ کسی بھی مرشد اور اللہ کے ولی کی صحبت سے اسی وقت فائدہ ہوسکتا ہے جبکہ استفادے کی سچی تڑپ ہو، اس کے لیے ان بزرگوں کے کڑوے کسیلے جملے بھی سننے کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کرنا ہوگا، طالب علم اگر معلّم کی سختی برداشت نہ کرے تو علم حاصل نہیں ہوسکتا، تصوف کی کتابوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اپنے کو کسی کامل اور ماہر کے حوالے کیا، ان کی حالت ہی بدل گئی۔

حضرت خواجہ عزیزالحسن صاحب مجذوب جب خانقاہ تھانہ بھون میں تھے کچھ بے اصولی کی بناء پر حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی نے حضرت خواجہ صاحب کو خانقاہ سے نکال دیا۔ ان کے اندر سچی تڑپ اور محبت تھی۔ یہ پھاٹک سے نکل کر فٹ پاتھ پر لیٹ گئے۔ لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ کو حضرت تھانوی نے جب نکال دیا ہے تو اب آپ اپنے گھر چلے جائیے۔ حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا کہ یہ تو ان کی جگہ نہیں ہے، یہ جگہ تو سرکاری ہے، میں یہاں سے کیوں چلا جاؤں اور ایک شعر پڑھا کرتے کہ۔

اُدھر وہ دَر نہ کھولیں گے                   اِدھر میں دَر نہ چھوڑوں گا

حکومت اپنی اپنی ہے                       کہیں ان کی کہیں میری

غرض کہ حضرت خواجہ صاحب پر حضرت تھانوی کو پھر ترس آیا کہ بے چارے کے اندر سچی طلب ہے۔ پھر چند ہی دنوں کے بعد جب تاجِ خلافت لیے ہوئے خانقاہ سے نکل رہے تھے تو یوں فرماتے ہوئے گئے کہ۔

نقش بتاں مٹایا دکھایا جمالِ حق                            آنکھوں کو آنکھ دل کو میرے دل بنادیا

آہن کو سوزِ دل سے کیا نرم آپ نے                     نا آشنائے درد کو بسمل بنادیا

مجذوب در سے جارہا دامن بھرے ہوئے                               صد شکر حق نے آپ کا سائل بنادیا

حضرت خواجہ عزیز الحسن، حضرت تھانوی کے معتمد اور مخصوص خلفاء میں سے ہیں۔ انھوں نے حضرت تھانوی کے انتقال کے بعد تین جلدوں میں ”اشرف السوانح“ کے نام سے کتاب تصنیف کی، جس کو پہلی مرتبہ مکتبہ تالیفات اشرفیہ تھانہ بھون ضلع مظفرنگر نے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب حضرت تھانوی کی سیرت پر ہے جو ان کی سیرت پر لکھی گئی تمام کتابوں میں کلید کی حیثیت رکھتی ہے، خواجہ عزیزالحسن کو سچی تڑپ تھی، اس لیے گیٹ کے باہر نکالے جانے پر بھی اپنے مرشد کا دامن نہیں چھوڑا، اگر وہ برہم ہوکر یا عزت نفس کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے حضرت تھانوی کا در چھوڑ کر چلے جاتے تو انہیں خلافت ملتی اور نہ ہی یہ اعزاز حاصل ہوتا۔

بعض لوگ یہ کہہ کر اس مسئلہ کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ اب ویسے بزرگ کہاں جو پہلے تھے، چاہنے کے باوجود بھی اولیاء اللہ کی صحبت آج میسر نہیں، یہ سوچ سراسر شیطانی دھوکہ ہے، یاد رکھنا چاہیے کہ اولیاء اللہ اور صلحاء ہر زمانے میں ہوتے رہے ہیں اور قیامت تک ہوتے رہیں گے، سورہ توبہ آیت ۱۱۹ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتے رہیں اور صادقین کی صحبت اختیار کریں، اگر سچے لوگ ہرزمانے میں پیدا نہ کیے جائیں تو یہ ایسا حکم ہوا جس کی تکمیل پر انسان قادر نہیں، اور ایسا حکم ایک کامل حکیم کی طرف سے نہیں دیا جاسکتا، اس لیے معلوم ہوا کہ صادقین، صلحاء، اولیاء اللہ کا وجود ہر زمانے میں رہے گا، ان کو ڈھونڈنا اور سچی تڑپ کے ذریعہ ان تک پہنچنا ہماری ذمہ داری ہے۔ مولانا رومی نے فرمایا کہ لیلیٰ کا جب انتقال ہوا تو مجنون کو خبر نہیں ہوئی تھی، بعد میں قبرستان پہنچا تو ہر قبر کی مٹی سونگھتا پھر رہا تھا۔ لیلیٰ کی قبر کی مٹی سونگھتے ہی وہ دیوانہ وار کہنے لگا ”یہی ہے، یہی ہے۔“ عشق ومحبت کی بنیاد پر مٹی کی بو سونگھ کر اس نے لیلیٰ کی قبر کا پتہ لگالیا۔ اسی طرح اگر کسی کو سچی پیاس اور تلاش ہوتو اللہ والوں کے جسموں کی خوشبوسونگھ کر اللہ والوں کو پہنچانا جاسکتا ہے، ہاں اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ زمانہ کے انحطاط کے ساتھ ولایت میں بھی انحطاط پیدا ہوا ہے، پہلے طالبین کامل تھے تو اولیاء اللہ جنید بغدادی اور حسن بصری کی شکل میں تھے، جب طلب صادق میں کمی آئی تو ولایت کا درجہ بھی کم ہوا، اس زمانہ میں اگر جنید بغدادی جیسا کوئی ولی ڈھونڈا جائے تو فضول ہوگا۔ہمارے لیے آج جنید بغدادی وہ صلحاء ہیں جن کی صحبت سے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت، آخرت کی فکر پیدا ہو، دنیا کی محبت کم ہونے لگے اور اعمال واخلاق درست ہونے لگے، اس سے سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اللہ والا ہے۔ اس کی صحبت سے مجھے ضرور فائدہ ہوگا اور ایسے لوگوں کی آج بھی کمی نہیں، بعض بزرگوں نے اولیاء اللہ کی پہچان یہ بتائی ہے کہ وہ سنت رسول  صلى الله عليه وسلم کے عاشق ہوں یعنی کسی کرامت کا ظہور بزرگی کے لیے لازم نہیں۔ فرائض وواجبات کے ساتھ مکمل طو رپر سنت کی پابندی ولایت کو جانچنے کے لیے کافی ہے، بہرحال ولی کامل ہویا ناقص ہم جیسے گنہگاروں کے لیے ان کی صحبت اور نظر کرم فائدے سے خالی نہیں، کاش! مسلمان دنیاداروں سے اپنی نگاہ اور توجہ کو پھیرکر اہل اللہ اور صلحاء کی طرف مرکوز کردیں، ان کی صحبت اختیار کریں اور ان سے اصلاحی تعلق قائم کریں کہ اس کے بغیر اصلاح ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔

***

ماہنامہ  دارالعلوم ، شماره 5 ، جلد: 94 ، جمادی الاول – جمادی الثانی 1431ہجری مطابق مئی 2010 ء

Related Posts