از: محمد شاہ نواز عالم قاسمی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی

عصر حاضر میں خاندانی ادارے کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان سب کا احاطہ تو شاید ممکن نہ ہو، ہرمعاشرے میں یہ چیلنج ایک دوسرے سے مختلف ہیں؛ بلکہ بعض حالات میں متضاد بھی۔ مثلاً کہیں جہیز کا اژدہا بے شمار جوانیوں کوچاٹ جاتا ہے اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں عفت مآب دوشیزائیں ہوس پرست نوجوانوں اور ان کے والدین کی ”ہل من مزید“ کی خواہشات کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ دوسری طرف کوئی باپ اپنی جوان بیٹی کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرنے کے لیے دندانِ حرص تیز کررہا ہوتا ہے۔ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے اِن دو طرفہ ہوس پرستوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: عورت سے نکاح چار اسباب کی بنیاد پر کیاجاتا ہے: اس کے مال کی وجہ سے، اس کے حسب و نسب کے باعث، اس کے حسن وجمال کے سبب سے اور اس کے دین کے تعلق سے؛ لہٰذا تم دین دار خواتین کو منتخب کرو۔ (مسلم شریف: ۲۶۶۱، بخاری شریف: ۴۷۰۰)

نیز آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی ایسا شخص جس کے دین اوراخلاق پسندیدہ ہوں نکاح کا پیغام دے تو اس سے نکاح کردیا کرو، بصورتِ دیگر زمین میں فتنہ وفساد برپاہوگا۔ (سنن الترمذی: ۱۰۰۴)

نکاح کے لیے مال ودولت کو معیار بنانا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اورنہ آپ کے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو، ارشاد ربانی ہے: اگر وہ غریب ہوں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو غنی فرمادے گا۔ (النور:۱۸=۳۲)

جہیز کی حقیقت

جہیز اور بری یہ دونوں درحقیقت زوج (لڑکے والوں کی) طرف سے زوجہ یا اہل زوجہ کو ہدیہ ہے اور جہیز جو درحقیقت اپنی اولاد کے ساتھ صلہ رحمی ہے فی نفسہ امر مباح بل کہ مستحسن ہے۔ (اصلاح الرسوم،ص:۵۶)

اگر خدا کسی کو دے تو بیٹی کو خوب جہیز دینا برا نہیں؛ مگر طریقے سے ہونا چاہیے، جولڑکی کے کچھ کام بھی آوے۔ (حقوق البیت،ص:۵۲)

جہیز میں قابل لحاظ امور

جہیز میں اس امر کا لحاظ رکھنا چاہیے: اوّل تو اختصار یعنی گنجائش سے زیادہ کوشش نہ کرے۔

دوم: یہ کہ ضرورت کا لحاظ کرے؛ یعنی جن چیزوں کی ضرورت فی الحال ہو وہ دینا چاہیے۔

سوم: یہ کہ اعلان نہ ہو؛ کیوں کہ یہ تواپنی اولاد کے ساتھ صلہ رحمی ہے دوسروں کو دکھلانے کی کیاضرورت ہے؟ حضور صلى الله عليه وسلم کے فعل سے جو اس روایت میں مذکور ہے تینوں امر ثابت ہیں۔ (اصلاح الرسوم،ص:۹۳)

حضرت فاطمہ رضى الله تعالى عنها کا جہیز

سیّدة النساء حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جہیز یہ تھا: دو یمنی چادر، دو نہالی جس میں اَلْسِی کی چھال بھری تھی، چار گدے، چاندی کے دو بازوبند، ایک کملی، ایک تکیہ، ایک پیالہ،ایک چکی، ایک مشکیزہ اور پانی رکھنے کا برتن یعنی گھڑا اور بعض روایتوں میں ایک پلنگ بھی آیا ہے۔ (ازالة الخفا واصلاح الرسوم،ص:۹۳)

حضرت فاطمہ رضى الله تعالى عنها کے جہیز کی حقیقت

ہمارے معاشرے میں جب جہیز کی بات آتی ہے تو سارے عہد نبوی سے ایک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اکلوتی مثال کو اس قدر زور بیان اور قوت استدلال فراہم کردیاجاتا ہے؛ گویا سنت نبوی کا تمام ترانحصار اسی پر ہے۔ سیّدہ فاطمہ رضى الله تعالى عنها کے اسباب کے ذریعے جہیز کو مسنون ثابت کرنے والے شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی اور دیگر صاحب زادیاں تھیں، آپ نے اُنھیں کتنا سامانِ جہیز دیا، اگر نہیں دیا ہے تو کیاوجہ ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم یہ تلقین فرمارہے ہیں: اولاد کو عطیہ دینے میں مساوات کو پیش نظر رکھو۔ (بیہقی)

ایک صحابی نعمان بن بشیررضى الله تعالى عنه اپنے ایک بیٹے کو عطیہ دینے کے سلسلے میں گواہ بنانے حاضر ہوئے توآپ نے پوچھا: کیا ساری اولاد کو اسی طرح کے عطیات دے رہے ہو؟ اُنھوں نے کہا: نہیں، تو آپ نے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اولاد کے بارے میں انصاف سے کام لو، کسی ایک کو دینا دوسرے کو نظر انداز کردینا ظلم ہے اور میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا۔ (متفق علیہ)

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ہاں یہ معاملہ آتاہے تو ایک بیٹی کو جہیز دے کر روانہ کرتے ہیں اور دوسری بیٹیوں کو نظرانداز کردیتے ہیں حال آں کہ آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے: میں انصاف نہیں کروں گا تو کون انصاف کرے گا؟

بخدا دامنِ نبوت ہر قسم کی نا انصافی سے پاک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر صحیح روایت سے یہ ثابت ہوجائے کہ آپ نے سیّدہ فاطمہ رضى الله تعالى عنها کے گھرکا سامان اپنے پاس سے دیا اور اُن چار سو اسی دراہم سے نہیں خریدا گیاجو حضرت علی رضى الله تعالى عنه نے اپنا واحد اثاثہ غزوئہ بدر میں ملنے والی زرہ کو فروخت کرکے حاصل کیاتھا تو بھی صورتِ حال علاحدہ تھی۔

بعثتِ نبوی سے پہلے کی بات ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کواپنے چچا ابوطالب کی معاشی تنگی کا شدت سے احساس تھا، ایک روز آپ نے اپنے دوسرے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: آئیے ہم ان کی مدد کرتے ہیں اور وہ اس طرح کہ ان کا ایک بیٹا میں لے لیتاہوں ایک آپ لے لیں۔ اس طرح ان کی معاشی ذمے داری کم ہوجائے گی؛ چناں چہ آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه کی کفالت کی ذمے داری لی جو شادی تک آپ کے ساتھ رہے۔ چوں کہ حضرت علی رضى الله تعالى عنه کی کفالت آپ کے ذمے تھی؛ اِسی لیے مدینہ منورہ میں مواخات کے موقعے پر جب ایک ایک انصاری اور ایک مہاجر کو بھائی بنایاگیا توآپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه کا ہاتھ پکڑکر فرمایا: یہ میرا بھائی ہے۔

مطلب یہ تھا کہ اس کی کفالت جس طرح مکہ معظمہ میں میرے ذمے تھی اب بھی میرے ذمے ہے؛ چوں کہ حضرت علی رضى الله تعالى عنه کی کفالت آپ کی ذمے داری تھی؛ اِس لیے حضرت علی رضى الله تعالى عنه نے جب نیاگھر بسانے کا اِرادہ کیاتو آپ نے اُن کے سرپرست ہونے کی ذمے داری پوری کرتے ہوئے کچھ ضروری سامان ساتھ کردیا جسے بعد میں ہوس پرستوں نے کچھ کا کچھ کردیا۔

مروّجہ جہیز کی خرابیاں

مگر اب جس طرح سے اس کارواج ہے اس میں طرح طرح کی خرابیاں ہوگئی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ نہ اب ہدیہ مقصود رہا نہ صلہ رحمی؛ بلکہ ناموری اور شہرت اور رسم کی پابندی کی نیت سے کیاجاتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ بری اور جہیزی دونوں کا اعلان ہوتا ہے،متعین اشیا ہوتی ہیں، خاص طرح کے برتن بھی ضروری سمجھے جاتے ہیں، جہیز کے اسباب بھی معین ہیں کہ فلاں چیز ضروری اور تمام برادری اور گھر والے اس کو دیکھیں گے، جہیز کی تمام چیزیں مجمع عام میں لائی جاتی ہیں اورایک ایک چیز سب کو دکھلائی جاتی ہے اور زیور اور جہیز کی فہرست سب کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ آپ خود فرمائیے یہ پوری ریا دکھلاوا ہے یا نہیں؟ اس کے علاوہ زنانہ کپڑوں کا مردوں کو دکھلانا کس قدر غیرت کے خلاف ہے۔

اگر صلہ رحمی مقصود ہوتی تو کیف ما اتفق جو میسر آتا اور جب میسر آتا بطور سلوک کے دے دیتے۔

اسی طرح ہدیہ اور صلہ رحمی کے لیے کوئی شخص قرض کا بار نہیں اٹھاتا؛ لیکن ان دونوں رسموں کو پورا کرنے کے لیے اکثر اوقات مقروض بھی ہوتے ہیں گوسود ہی دینا پڑے اور گو باغ ہی فروخت یا گروی ہوجائے پس اس میں الزام مالا یلزم اور نمایش اور شہرت اور اسراف وغیرہ خرابیاں موجود ہیں؛ اِس لیے یہ بھی بطریق متعارف (مروّجہ طریقے سے) ممنوعات کی فہرست میں داخل ہوگیا۔ (اِزالة الخفاء، اصلاح الرسوم،ص:۵۱و ص:۵۷)

***

Related Posts