اجلاس مجلس شوریٰ: دارالعلوم دیوبند ابتدائے قیام ہی سے اپنی علمی و دینی خدمات مجلس شوریٰ کی زیرسرپرستی اور اس کے فیصلوں کی روشنی میں انجام دیتاہے۔ دستور کے مطابق عام طور پر سال میں شوریٰ کے دو اجلاس ہوا کرتے ہیں، ایک تعلیمی سال کے ابتدائی مہینوں میں اور دوسرا اختتام سال پر، اسی معمول کے مطابق سال رواں کا پہلا اجلاس ۱۸،۱۹/صفر ۱۴۲۶ھ مطابق ۲۹،۳۰/مارچ ۲۰۰۵/ کو منعقد ہوا۔ اس اجلاس کا بنیادی ایجنڈا دارالعلوم کے آمد و صرف کے بجٹ کی منظوری ہواکرتا ہے۔ اسی کے ساتھ دیگر ضروری فیصلے بھی کئے جاتے ہیں، چنانچہ دارالعلوم کے مرکزی شعبہ اہتمام کی جانب سے تیار کردہ بجٹ اپنی مکمل تفصیلات کے ساتھ اجلاس میں پیش ہوا اور حضرات اراکین نے اس کے نوک و پلک کو مزید درست کرنے کے بعد اسے منظوری دیدی، علاوہ ازیں دفتر اہتمام، تعلیمات وغیرہ شعبہ جات کی کارکردگی رپورٹیں بھی مجلس میں پیش ہوئیں اور نقد و نظر کے بعد ان سے متعلق ضروری احکامات صادرہوئے۔

ایک مبارک تقریب: والا مراتب حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم کے نبیرہ حافظ محمد بن مولانا انوار الرحمن سلّمہ اللہ تعالیٰ ابھی چند ماہ قبل خدائے پاک کے فضل و کرم سے کلام الٰہی قرآن مجید کے حفظ کی سرمدی سعادت سے بہرہ ور ہوئے ہیں، اس عظیم شرف و مجد اور کمال نیک بختی کی مسرت و خوشی میں حضرت والا نے اپنے دولت کدہ قاضی پاڑہ، شہر بجنور میں ۳۱/مارچ کو ایک نہایت پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا جس میں دارالعلوم کی مجلس شوریٰ کے موٴقر ارکان، حضرات اساتذہ اور دارالعلوم کے پورے اسٹاف کے علاوہ شہر دیوبند سے حضرت مولانا محمد سالم صاحب مدظلہ العالی کے ہر سہ صاحبزادگان اور معززین شہر کی ایک اچھی خاصی تعداد شریک تقریب ہوئی، نیز ریحانة العصر حضرت شیخ سہارنپوری ثم مدنی کے خلف رشید یادگار اکابر حضرت مولانا محمد طلحہ زیدمجدہ اور مظاہر علوم سہارنپور و مدرسہ شاہی مراد آباد کے اکابر اساتذہ و ذمہ دار حضرات کے علاوہ مقامی علماء و سماجی و سیاسی عمائدین کی ایک بڑی جماعت مدعو تھی۔ ندوة العلماء لکھنوٴ کے درجہ علیا کے استاذ مولانا محمد زکریا سنبھلی نے حضرت مولانا منظور احمد نعمانی نور اللہ کے خانوادہ کی نمائندگی کی، نیز جمعیة علمائے اسلام پاکستان کے صدر اور مجلس عمل پاکستان کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا فضل الرحمن کے نمائندہ کی حیثیت سے پاکستان کی قومی پارلیمینٹ کے دو رکن مولانا عطاء الرحمن اور مولانا شجاع الملک زیدہ شرفہما کی شرکت نے اس تقریب کی برکات کو سرحد پارتک وسیع کردیا، تقریب کا آغاز کرتے ہوئے مولانا محمد فرقان بجنوری فاضل دیوبند نے مولاناقاری محمد عفان منصور پوری کو تلاوت قرآن مجید کی دعوت دی، بعد ازاں حضرت مولانا مفتی محمد سعید پالن پوری، اور حضرت مولانا عبدالحق اعظمی اساتذئہ حدیث دارالعلوم نے فضائل حفظ قرآن سے متعلق جامع پرمغز تقریریں کیں اور آخر میں حافظ محمد سلّمہ اللہ نے سورہ حجرات کے آخر رکوع اور مع سورہ فاتحہ سورہ بقرہ کی ابتدائی چند آیتوں کی تلاوت کی بعد ازاں حضرت امیر الہند مولانا سید اسعد مدنی دامت برکاتہم العالیہ کی مخلصانہ رقت آمیز دعاؤں پر تلاوت و تذکیر اورطلب و دعا کی یہ بابرکت مجلس اختتام پذیر ہوئی اور ظہرانہ کا سلسلہ شروع ہوا جو مدعووین کی کثرت کی بناء پر قبیل مغرب تک جاری رہا۔ حضرت مہتمم صاحب پیرانہ سالی اور امراض کے باوجود بنفس نفیس مہمانوں کا ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق استقبال کرتے تھے جسے دیکھ کر قلب بہت متاثر ہوا اور بزرگوں کی وضعداری کا نقشہ نظروں کے سامنے پھر گیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مبارک تقریب کو دارین میں خیر کا وسیلہ بنائیں اور پورے خاندان کو دین و دنیا کی ترقیات سے ہمکنار فرمائیں۔

اعزازی نشست : پاکستان کے دونوں معزز مہمان حفظ قرآن کی تقریب میں شرکت سے فارغ ہوکر دارالعلوم دیوبند کی تعلیمی و تربیتی سرگرمیوں اور یہاں کی علمی و دینی چہل پہل کو براہ راست دیکھنے کے لئے یہاں پہنچے۔ دارالعلوم کے ذمہ داروں نے دونوں ذی مرتبت باوقار مہمانوں کا ان کے شایان شان استقبال کیا اور ان کے اعزاز میں بعد نماز مغرب ایک تاثراتی علمی نشست کا اہتمام کیا۔ جس میں دارالعلوم کے تقریباً سارے طلبہ اور بڑے اساتذہ شریک ہوئے۔ نشست کا آغاز کرتے ہوئے حضرت مولانا سید ارشد مدنی ناظم مجلس تعلیمی نے استقبالی و تعارفی تقریر فرمائی۔ بعد ازاں دونوں معزز مہمانوں کی تقریریں ہوئیں، دونوں حضرات نے دارالعلوم دیوبند کی علمی و دینی خدمات کی بیحد تحسین کی بطور خاص مولانا شجاع الملک نے فرمایا کہ عصر حاضر میں دارالعلوم دیوبند ہی کو یہ امتیازحاصل ہے کہ پورے عالم اسلام میں اس کی خدمات کے آثار محسوس کئے جاتے ہیں۔ آج دنیا کا کوئی گوشہ اور خطہ ایسا نہیں پایا جاتا جہاں مسلمان آباد ہوں اور وہ دارالعلوم سے متاثر ہوں یہ مالک کائنات کا خصوصی عطیہ ہے جو دارالعلوم دیوبند کے حصہ میں آیا ہے۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشند ہ

اس باوقار اور یادگار نشست کا سلسلہ تقریباً ۹/بجے شب تک جاری رہا بعد ازاں تکبیر و زندہ باد کے نعروں کے ساتھ طلبہٴ عزیز نے مہمانان محترم کو ان کی آرام گاہ تک رخصت کیا۔

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ4، جلد: 89 ‏،صفر‏، ربیع الاول 1426ہجری مطابق اپریل 2005ء

Related Posts