دوسری قسط

از: محمد عظیم فیض آبادی  

اسلام حسین و خوشگوار ماحول اور الفت بھرے معاشرے کو نہ صرف یہ کہ پسند کرتا ہے بلکہ جابجا اس کی تعلیم و تاکید کرتا ہے ظاہر ہے کہ ہر شخص کے لیے معاشرے کا پہلا فرد اس کا پڑوسی ہے جب ہر پڑوسی دوسرے پڑوسی کا ہر طرح خیال رکھے گا اس کے رنج وغم کے موقع پر اس کا مداویٰ اور مشقت، تکلیف و پریشانی کے وقت نصرت وحمایت، اورامداد کے لیے کھڑا رہے گا تو خود بخود اطمینان وسکون کی فضاء قائم ہوگی اور دین کا مقصد اجتماعیت کی صورت میں نمودار ہوگا اور امت کا ہر فرد اسلام کے سایہ تلے سکون کی زندگی گزارسکے گا بایں وجہ اسلام نے پڑوسی کے حقوق اور اس کے ساتھ حسن سلوک کی حد درجہ تاکید کی ہے۔

آپ اسلام کی فراخدلی کہئے کہ اگر کافر پڑوسی ہو اس کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم دی ہے مسند بزار کے اندر حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ پڑوسی تین طرح کے ہیں ایک وہ پڑوسی جس کا صرف ایک حق ہے اور دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوں اور تیسرا وہ پڑوسی جس کے تین حق ہیں۔

ایک حق والا وہ غیرمسلم پڑوسی ہے جس سے کوئی قرابت و رشتہ داری بھی نہ ہو اس کے لیے صرف پڑوسی ہونے کا حق اور دو حق والا وہ پڑوسی ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم دینی بھائی بھی ہو اس کا ایک مسلمان ہونے کا دوسرا حق پڑوسی ہونے کی وجہ سے اور تین حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہو مسلمان بھی اور رشتہ دار بھی ہو تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا دوسرا پڑوسی ہونے کا اور تیسرا حق قرابت و رشتہ داری کا ہوگا۔

جامع ترمذی وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کا واقعہ مذکور ہے کہ ایک دن ان کے گھر بکری ذبح ہوئی انھوں نے گھروالوں سے کہا اہدیتم لجارنا الیہودی اہدیتم لجارنا الیہودی سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول مازال جبرئیل یوصینی بالجار حتی ظننت انہ سیورّثہ․ تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے لیے بھی ہدیہ بھیجا؟ تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے لیے بھی ہدیہ بھیجا؟ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی اس قدر تاکید کرتے ہوئے سنا کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ وہ اس کو وارث قرار دے دیں گے۔

پڑوسیوں کے حقوق ان کے اکرام واحترام، ان کی رعایت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی جو تاکید قرآن وحدیث میں مذکور ہے ان میں غیرمسلم بھی داخل ہے۔

عبداللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہ کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا تھا یہودی نے اپنا مکان فروخت کرنا چاہا ایک آدمی نے پوچھا کتنے میں فروخت کروگے کہنے لگا کہ میں دو ہزار دینار میں فروخت کروں گا اس خریدار نے کہا کہ اس علاقے میں اس قسم کے مکان کی قیمت زیادہ سے زیادہ ایک ہزار دینار ہوتی ہے، یہودی کہنے لگا کہ ہاں ٹھیک ہے ایک ہزار دینار تو میرے مکان کی قیمت ہے اور ایک ہزار دینار عبداللہ بن مبارک کے پڑوس کی قیمت ہے ایک وقت تھا کہ مسلمانوں کے پڑوس میں جو مکان ہوتے تھے ان مکان کی قیمتیں ان کے اخلاق وکرار کی خوبیوں کی وجہ سے بڑھ جایا کرتی تھیں اور آج یہ وقت آچکاہے کہ یورپ کے بعض علاقوں میں مسلمان مکان لینے جاتے ہیں تو انھیں کوئی مکان کرایہ پر بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

ابوحمزہ ”سکری“ حدیث کے معروف راوی ہیں جو ”سکری“ کے لقب سے مشہور ہوئے ”سکر“ عربی زبان میں چینی کو کہتے ہیں ان کے تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ انھیں سکری اس وجہ سے کہا جاتا تھا کہ ان کی باتیں بڑی شیریں اور ان کا لہجہ اور ان کا انداز گفتگو بڑا ہی دلکش دلنشیں تھا جب وہ بات کرتے تو سننے والا ان کی باتوں میں محو ہوجاتا وہ شہر بغداد کے ایک محلے میں رہتے تھے کچھ عرصہ بعد انھوں نے اپنا مکان فروخت کرکے کسی دوسرے محلے میں سکونت اختیار کرنے کا ارادہ کیا اور مکان خریدنے والے سے معاملہ بھی تقریباً طے ہوگیا تھا جب ان کے پڑوسیوں کو معلوم ہوا کہ وہ اس محلے سے منتقل ہوکر کہیں اور قیام کا ارادہ کرچکے ہیں تو محلے والے ایک وفد لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے منت وسماجت کی کہ وہ یہ محلہ نہ چھوڑیں حضرت ابوحمزہ سکری نے اپنا عذر بیان کیا تو محلہ والوں نے متفقہ طور پر انھیں یہ پیش کش کی کہ ان کے مکان کی جو قیمت لگی ہے ہم وہ قیمت آپ کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کرتے ہیں لیکن آپ ہمیں اپنے پڑوس سے محروم نہ کیجیے جب انھوں نے محلہ والوں کے اس قدر خلوص کا مظاہر کیا تو اس محلے کے چھوڑنے کا ارادہ ملتوی کردیا۔

یہ ہے پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت اوران کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا نتیجہ وثمرہ کہ ایسے پڑوسی کی وجہ سے مکان کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے یا پھر مکان کی قیمت کے بقدر ہدیہ پیش کرکے ایسے پڑوسی کو کوچ کرنے سے روکا جاتا ہے اور ایسے پڑوسی کے چلے جانے سے اپنے آپ کو محروم تصور کیا جاتا ہے۔

پڑوسیوں کے حقوق کے سلسلے میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے ارشادات جس طرح ترک تعلق، زندگی کے معاملات میں ان کے ساتھ حسن رعایت اور حسن سلوک سے ہے اسی طرح تعلیم و تربیت کے متعلق بھی آپ نے تاکید و ترغیب دی ہے۔ اگرکسی کے پڑوس میں ایسے غریب ونادار لوگ ہوں جو دینی تعلیم و تربیت اوراپنی عملی واخلاقی حالت کے لحاظ سے پسماندگی کا شکار ہوں تو دوسرے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت اور ان کے اصلاح کی فکر وکوشش کریں۔

حضرت علقمہ بن عبدالرحمان بن ابزیٰ نے اپنے والد کے واسطے سے اپنے دادا ابزیٰ خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ایک دن ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے اور ان لوگوں کا کیا حال ہے (جنھیں اللہ نے علم وتفقہ کی دولت سے مالا مال کیاہے اور ان کے پڑوس میں ایسے پسماندہ لوگ مقیم ہیں جن کے پاس دین کا علم اور اس کی سمجھ بوجھ نہیں) وہ اپنے ان پڑوسیوں کو دین سکھانے اور دینی تعلیم دینے کا فریضہ انجام کیوں نہیں دیتے نہ ان کو وعظ ونصیحت کرتے ہیں نہ ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں اور ان (بے علم وپسماندہ) لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے دین سیکھنے اور دینی تعلیم حاصل کرنے کی فکر نہیں کرتے اور نہ ان سے وعظ ونصیحت حاصل کرتے ہیں خدا کی قسم (دین کا علم اور اس کی سمجھ رکھنے والے) لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے (ناواقف و پسماندہ) پڑوسیوں کو دین سکھانے اور دین کی سمجھ بوجھ ان میں پیدا کرنے کی کوشش کریں اور وعظ و نصیحت (کے ذریعہ ان کی اصلاح) کریں اور انھیں نیک کاموں کی تاکید اور برے کاموں سے منع کریں۔ اور اسی طرح ان کے پسماندہ و ناآشنا پڑوسیوں کو چاہیے کہ وہ خود طالب بن کر اپنے (اہل علم) پڑوسیوں سے دین کا علم وفہم حاصل کریں اور ان سے نصیحت لیں یا پھر (یعنی اگر ان دونوں طبقے نے اپنا اپنا فرض ادا کیا) تو میں ان کو دنیاہی میں سخت سزا دلواؤں گا۔

کنزل الاعمال میں حضور صلى الله عليه وسلم کا یہی خطاب اس اضافہ کے ساتھ مذکور ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم کا روئے سخن اس خطاب میں حضرت ابوموسیٰ اشعری اور حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہم کی قوم اشعریین کی طرف تھا اس قوم کے لوگ عموماً علم و تفقہ کی دولت سے مالامال تھے لیکن ان ہی کے علاقے اور پڑوس میں ایسے لوگ بھی آباد تھے جو تعلیم و تربیت کے لحاظ سے پسماندگی کے شکار تھے نہ ان میں تعلیم و تربیت تھی نہ ہی اس کے حصول کا جذبہ وفکر تھی اس لیے حضور صلى الله عليه وسلم نے اپنے اس خطاب کے ذریعہ ان کو اس طرف متنبہ کیا اور بعد میں اس قوم کا ایک وفد آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ وعدہ کیا کہ ہم انشاء اللہ ایک سال کے اندر اس قوم کے لوگوں کو دین کی تعلیم دیں گے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ہر علاقہ کے علماء وحفاظ کو اس کاذمہ دار ٹھہرایا کہ وہ اپنے پاس پڑوس اور قرب و جوار میں بسنے والے ناواقف لوگوں کو دین کی تعلیم دیں اور دعوت و تبلیغ، وعظ و نصیحت کے ذریعہ ان کی اصلاح کی کوشش وفکر کرتے رہیں۔

اور اسی طرح ان ناواقف وناخواندہ لوگوں کو بھی اس بات کا ذمہ دار قرار دیا ہے کہ وہ اپنے قریب کے اہل علم و دین حضرات سے تعلیم و تربیت اور اصطلاح کا رابطہ رکھیں۔

افسوس ہے کہ عہد نبوی سے جتنا بُعد ہوتا گیا امت آپ کی تعلیمات و ہدایات سے اسی قدر دور ہوتی چلی گئی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے پڑوسیوں، ہمسایوں کے بارے میں جو وصیت وتاکید امت کو فرمائی تھی اگر قرون اولیٰ کے بعد بھی امت کا اس پر عمل رہا ہوتا تو یقینا امت کے کسی طبقہ میں بھی بے راہ روی دین سے بے خبری اوراللہ و رسول سے بے تعلقی، علمی پسماندگی اور فتنہ وفساد کا یہ عالم نہ ہوتا امت کی غالب اکثریت جس میں سرابور ہے۔

ایک زمانے سے دنیا تعلیمی ترقی کے لیے کوشاں ہے لیکن بین الاقوامی سطح پر اقوام عالم تعلیمی ترقی کے حصول اور علمی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے خطیر رقمیں صرف کرنے اور گلی گلی گاؤں گاؤں اسکول، کالج اور بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے قیام اور تعلیم کے تعلق سے مختلف قسم کے سیمینار، کانفرنسوں اور میٹنگوں کے انعقاد کے باوجود آج بھی اپنے مقصد میں کلی طور پر کامیابی سے ہم کنار ہوتے نظر نہیں آتی۔ آج کے سوا چودہ سو سال پہلے معلم انسانیت محمد عربی صلى الله عليه وسلم نے تعلیمی ترقی اور علمی پسماندگی کو ختم کرنے کے لیے قوم اشعریین کو جس اصول وطریقے کی تعلیم دی تھی آج کے یہی بہی خواہان قوم اگر اس زریں اصول کو پوری دنیا میں جاری ونافذ کردیں اور قوم کا ہر تعلیم یافتہ شخص اپنے پڑوس میں بسنے والے ناخواندہ شخص کی تعلیم کا ذمہ دار بن جائے تو بہت جلد ان شاء اللہ قوم کا ہرناآشنا شخص شناشا بن جائے گا علمی پسماندگی دور ہوگی اوراس طرح پوری دنیا جہالت سے چھٹکارا حاصل کرکے علم کا گہوارہ بن جائے گی۔ دنیا کی بیشتر برائیاں صرف عدم تعلیم یاناقص تعلیم کی وجہ سے ہیں اگر دنیا اس زریں اصول کو حرز جاں سمجھ لے تو پھر دنیا میں خیر کا غلبہ ہو۔

کم از کم محمد عربی صلى الله عليه وسلم کے پیروکاروں کو اسے قبول کرنے اور عمل کرنے کو سعادت و نیک بختی اوراجر و ثواب کا باعث سمجھ کر اس کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔

بلاشبہ اس وقت اس امت کے اندر سب سے بڑی خدمات اور سب سے بڑا اصلاحی و تجدیدی کارنامہ یہی ہے کہ امت میں تعلیم و تعلم کے اس عمومی غیررسمی نظام کو پھر سے چلایا جائے اس حدیث پاک کے اندرجس کی ہدایت دی گئی ہے بڑے ہی خوش نصیب ہوں خدا کے وہ بندے جن کو اس کی توفیق ملے۔

* * *

————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 06-05 ، جلد: 93 جمادى الاول – جمادى الثانى 1430 ھ مطابق مئى – جون 2009ء

Related Posts