حرف آغاز
حبیب الرحمن اعظمی
ہندوستان ایک تکثیری معاشرے کا ملک ہے، جو صدیوں سے مختلف مذاہب اور تہذیب و ثقافت کا گہوارہ ہونے کی حیثیت سے بین الاقوامی دنیا میں اپنی ایک شناخت رکھتا ہے۔ ملک کے آئین کے اعتبار سے بھی یہاں کے تمام باشندوں کو اپنے مذہبی افکار وعقاید اور زبان وکلچر کے تحفظ، ان کے استعمال اور ان کی ترویج و اشاعت کا حق حاصل ہے۔
مگر ملک کے اقتدار پر قابض طاقتیں، ملک کی اس قابل فخر رنگارنگ تہذیب کو ختم کرکے ملک کی تمام مذہبی و تہذیبی اکائیوں کو ایک رنگ میں رنگ لینا چاہتی ہیں۔ اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے سرکاری سطح سے لے کر عوامی سطح تک سرگرم عمل ہیں۔ چناں چہ اخلاقی اقدار اور قومی کلچر کے نام پر برہمنی عقاید واساطیر کو اسکولی تعلیم کے قومی نصاب میں شامل کردینے کی کوششیں ایک عرصہ سے جاری ہیں اور فروغ انسانی وسائل کا مرکزی وریاستی دفتر اپنے تمام تر اختیارات کے ساتھ اس مہم کو سرکرنے میں مصروف ہے۔ چنانچہ ایک طرف مدرسہ بورڈ کے عنوان سے مسلم اقلیت کے مذہبی تعلیمی اداروں کو اپنی خواہشات و ترجیحات کے تابع بنادینے کے دیرینہ منصوبہ پر عمل شروع کردیاگیا ہے، تودوسری طرف انھیں دہشت گردی کا مرکز بتاکر ان سے وابستہ افراد کو جارحیت اور تشدد کا شکار بنایا جارہاہے۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ وہ مدارس اسلامیہ جنھوں نے وطن عزیز کی آزادی اور ملک کے وقار و عزت کی بحالی کے لیے خود بھی قربانیاں دیں اور دوسروں کے اندر بھی جاں بازی و سرفروشی کا حوصلہ پیدا کیا، وہ مدارس اسلامیہ جنھوں نے وقت کی استبدادی قوت سے پنجہ آزمائی اور برٹش استعمار سے ملک کو نجات دلانے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں سپاہی اور ہزاروں کی تعداد میں قائد و سپہ سالار مہیاکیے۔ وہ اسلامی تعلیم گاہیں جنھوں نے اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعہ ایسے علم وفن کے مینار تعمیر کیے جن سے بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن ہوا، وہ دینی مدارس جو اپنی تاریخ کی روشنی میں ہندوستان کو سب سے بہتر شہری اورامن و امان کے داعی اورمحافظ دیتے رہے ہیں، دین ومذہب، علم وہنر اور امن وآشتی کے ان معماروں کو آج اپنی مذموم ذہنیت اور پست اغراض کے تحت دہشت گردوں کی پناہ گاہ بتایا جارہا ہے اور ان پر بے جا قدغن لگانے اورانھیں ان کے اصل منہاج ومقاصد سے منحرف کردینے کے لیے انصاف و قانون ہی نہیں بلکہ ملک کے آئین اور اس کی قدیم روایات کو پامال کیا جارہاہے۔
ہم ملک کے ایک شہری ہونے کے ناطے ہی نہیں بلکہ اپنے دین ومذہب کی بنیاد پر اپنی جنم بھومی اور وطن عزیز سے تاریخ کے ہر موڑ پر مکمل وفادار رہے ہیں، ملک کی عزت و وقار اور استحکام و ترقی کے لیے ہم نے بے مثال قربانیاں دی ہیں، گلستانِ وطن کی اپنے خون جگر سے آبیاری کرکے اسے لالہ زار بنایا ہے، اپنے علم وفن اور تہذیب وتمدن کے چراغوں سے ارض وطن کو روشن اور تابناک کیا ہے۔ اس لیے فطری طور پر ہندوستان کے چپہ چپہ سے ہمیں پیار ہے اور بے لوث پیارہے۔
پھر بھی ہمیں دہشت گرد بتاکر اورہمارے مذہبی تعلیمی اداروں پر دہشت نوازی کا الزام عائد کرکے قومی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کردینے کی مذموم کوششیں کی جاری ہیں۔ اور یہ سب ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے نہیں بلکہ امریکہ اور اس کے حاشیہ برداروں کی خوشنودی میں کیا جارہا ہے۔ تفو برتو اے چشم گردوں تفو!
اس موقع پر ہم صاف لفظوں میں واضح کردینا چاہتے ہیں، کہ ہم مسلمان ہندوستان میں کسی کے رحم وکرم پر نہیں بلکہ اپنے وطن عزیز ہونے کی حیثیت سے رہتے ہیں یہی ہمارا مسقط رأس اور جنم بھومی ہے اسی کی فضاؤں میں ہم پروان چڑھے ہیں، اس کی تعمیر و ترقی میں ہم برابر کے شریک ہیں اس لیے اس ملک پر جتنا دوسروں کا حق ہے اتنا ہی ہمارا بھی ہے۔ ملک کے آئین نے ہمیں حقوق شہریت میں مساوات کے ساتھ آزادیٴ رائے، آزادیِ مذہب، اپنی تعلیم و ثقافت کی حفاظت اور اس کے لیے تعلیمی ادارے قائم کرنے کے بنیادی حقوق دئیے ہیں۔ یہ حقوق ہمیں جان کی طرح عزیز ہیں جن سے ہم کسی بھی حالت میں دست بردار نہیں ہوسکتے، لہٰذا ایک خاص فکر وذہنیت کے تحت ہمارے تعلیمی اداروں کے خلاف جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے اور اس بہانے انھیں اپنے تسلط کے شکنجے میں کسنے کی مدرسہ بورڈ کے نام سے جو تدبیریں کی جارہی ہیں جس کے ذریعہ درسگاہوں کی صاف وشفاف اور وشن دینی و مذہبی تاریخ کو مٹانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ ہم اس کو کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ قانون و انصاف اور آئین و دستور کے تقاضوں کے مطابق ہم اس کا ہر سطح پر بجان ودل مقابلہ کریں گے۔ خدائے رب العزت ہماری نیتوں میں اخلاص، ہمارے عزائم میں پختگی اور جہدوعمل کو بارآور اور نتیجہ خیز بنائے، آمین۔
ہم اہل مدارس سے بھی کہنا چاہتے ہیں کہ وہ حالات کی نزاکت کومحسوس کریں اور مایوسی و بیدلی اور کسی قسم کی حرص ولالچ کی بجائے عزم و حوصلہ اور حزم و احتیاط اور خداے وحدہ لاشریک لہ پر پورے توکل واعتماد کے ساتھ اپنے دینی وملّی فریضہ کی ادائیگی میں ہمہ تن مصروف رہیں، طلبہٴ علوم قوم وملت کی گرانقدر امانت ہیں جن کی تعلیم و تربیت اور ساخت و پرداخت کی عظیم ذمہ داری ہمارے سروں پر ہے،اگر خدانخواستہ ہم غفلت و بے توجہی یا حکومت وقت کے بچھائے دام ہم رنگ زمیں میں پھنس کر اپنے اسلاف اور بزرگوں کے قائم کردہ منہج مستقیم سے ہٹ گئے تو یوم آخرت میں ہمیں جوابدہ ہونا پڑے گا۔ اس لیے ہماری شرعی ذمہ داری ہے کہ ہم طلبہٴ عزیز کی تعلیمی وتربیتی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، دیگر غیرضروری مشاغل سے انھیں بچائیں، نیز مدارس کے ماحول کو گردوپیش کی آلودگیوں اور مدرسہ بورڈ کے فتنہ سے محفوظ رکھنے کی جانب پوری توجہ دیں۔ اسی کے ساتھ خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں کہ اللہ رب العزت مدارس دینیہ کو ہرقسم کے شروروفتن سے محفوظ رکھیں، آمین۔
* * *
————————-
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 03 ، جلد: 93 ربيع الاول 1430 ھ مطابق مارچ 2009ء