زیر اہتمام: رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند
بمقام جامع رشید بتاریخ ۲۰/صفر ۱۴۴۴ھ مطابق ۱۸/ستمبر ۲۰۲۲ء یک شنبہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دارالعلوم دیوبند کے زیر اہتمام منعقد ہونے والا، مدارس اسلامیہ اترپردیش کا یہ نمائندہ اجلاس، اس رنگا رنگ تہذیبوں والے ملک میں بسنے والے تمام برادارانِ وطن کے سامنے اس حقیقت کا اظہار ضروری سمجھتا ہے کہ ہندوستان کے طول وعرض میں چلنے والے دینی مدارس، اپنی تعلیمی وتربیتی اور ملکی وسماجی خدمات کی ایک روشن تاریخ رکھتے ہیں، یہ مدارس جن کا آغاز ملک پرانگریزوں کے تسلط کے بعد دارالعلوم دیوبند کے قیام سے ہوا تھا، ان کا مقصد مسلمانوں کے دینی ورثہ کی حفاظت کے ساتھ ساتھ وطن عزیز سے غیر ملکی تسلط کو ختم کرنا بھی تھا، اور انہوں نے ان دونوں مقاصد کو اعلیٰ معیارپر پوراکیا۔ ایک طرف ملک کی سب سے بڑی اقلیت کی تمام مذہبی ضروریات کا تکفل کیااور اُن کو اچھا مسلمان اور اچھا انسان بنانے میں اعلیٰ کردار اداکیا اور اس طرح ملک کو نہایت ذمہ دار مزاج کے حامل شہری عطاء کیے، دوسری طرف ملک کی آزادی کے لیے ہر قسم کی قربانی دی اور علماء کی قیادت میں مسلمانوں کو تحریک آزادی میں برادرانِ وطن کے دوش بدوش بلکہ اُن سے آگے بڑھ کر قربانیاں دینے کے لیے تیار کیا، جس کی گواہی اس ملک کا چپہ چپہ دیتا ہے اور جس کو تمام انصاف پسند تاریخ داں تسلیم کرتے ہیں۔
پھر آزادی کے بعد بھی ان مدارس نے اپنا شاندار کردار جاری رکھا، ان سے ہمیشہ امن کی آواز بلند ہوئی، ملک کو اچھے شہری ملے اور مفت تعلیم کے ذریعہ ملک کی آبادی کے ایک نادار اور غریب حصہ کو اپنی بساط بھرزندگی بہتر بنانے کا موقع ملا۔مدارس کی تاریخ کا ایک روشن باب یہ بھی ہے کہ ان سے دہشت گردی کے خلاف آواز بلند ہوئی اور انہیں کے فرزندوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود حالات کو قابو میں رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مدارس کی محنت اور رہنمائی سے ہندوستانی مسلمانوں کی دنیا بھر میں نہایت صاف ستھری شبیہ قائم ہوئی، جس کا اعتراف اپنے اپنے وقت میں ذمہ داران حکومت اور وزراء نے بھی کیا۔
ان مدارس کے کردار کا ایک حسین پہلو یہ بھی ہے کہ ان کی کوئی سرگرمی خفیہ نہیں ہے، مدرسوں کے اندر کسی کے آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے، جس کی وجہ سے خفیہ محکمے اور تفتیشی ادارے بھی پوری طرح مطمئن رہتے ہیں اور ان میں کسی ملک دشمن سرگرمی کا کوئی ثبوت نہیں ملتاہے۔
اپنے ملک اور اس کے نظام کے ساتھ مدارس کی وفاداری اور آئین وقانون کی پاسداری کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے، چنانچہ آج تک کوئی مدرسہ، کسی ملک دشمن سرگرمی میں ملوث نہیں پایا گیا، اگر اتفاق سے کہیں بعض افراد پر الزام آیا تو اکثر وبیشتر وہ ثابت نہیں ہوا، اور اگر ہو بھی جائے تو اس کے لیے پورے مدرسہ کو یا مدارس کے نظام کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا،اس لیے تمام لوگوں کو چاہیے کہ مدارس کے امن پسند اور وطن دوست کردار کو سامنے رکھیں اور منفی باتوں سے متاثر نہ ہوں۔
یہ اجلاس، میڈیاکے ذمہ داروں اور نمائندوں سے بھی یہ اپیل کرتا ہے کہ مدارس کے تئیں مثبت رویّہ اپنائیں اور مدارس کے وطن دوست،پُرامن کردار کونمایاں کریں، اسی میں ملک کی بھلائی ہے، اور ملک میں بسنے والی تمام اقوام کی بھی۔
یہ اجلاس،ملت اسلامیہ کے تمام طبقات سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ملت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے ان مدارس کی قدروقیمت کو محسوس کریں اور ایسے کسی بھی قول وفعل سے اجتناب کریں، جس سے مدارس کی حیثیت مجروح ہو یا اُن کے بارے میں کوئی منفی تاثر پیدا ہو، بلکہ حتی الامکان ایسے اقدامات کریں جن سے مدارس کو تقویت واستحکام حاصل ہو، اور ملک میں بھائی چارہ اور پیار ومحبت پیدا ہو۔
یہ اجلاس، تمام مدارس اسلامیہ سے اپیل کرتا ہے کہ حکومت کی جانب سے ہونے والے حالیہ سروے کے عمل سے کسی خوف یا ذہنی انتشار کا شکار نہ ہوں، نہ کسی جذباتیت کا مظاہرہ کریں، بلکہ اس کو ایک ضابطہ کی کارروائی سمجھتے ہوئے تعاون کا طرز عمل اختیار کریں، اس سلسلے میں چند امور قابل توجہ ہیں:
(۱) سروے ٹیم کو صحیح اور واقعی معلومات فراہم کرائیں، تاکہ کسی جانچ وغیرہ کے موقع پر دشواری نہ ہو، اگر ضابطہ کے اعتبار سے انتظامات میں کچھ کمی ہو تو جلد ہی اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
(۲) مالیات کا نظام چست درست رکھیں، کسی آڈیٹر کے ذریعہ حسابات کی سالانہ جانچ کراکر اس کی رپورٹ محفوظ رکھیں اوراس سلسلے میں کوئی خامی باقی نہ رہنے دیں۔
(۳) مدرسہ کی زمین جائداد کے ملکیتی کاغذات کو درست رکھیں، مدرسہ کو چلانے والی سوسائٹی یا ٹرسٹ اور مدرسہ کی جائداد کا رجسٹریشن قانونی تقاضوں کے مطابق کرالیں۔
(۴) مدرسہ میں طلبہ کے لیے،صحت مند ماحول میں صاف ستھری رہائش اور کھانے کا بندوبست رکھیں، غسل خانوں اور استنجاخانوں کو خاص طور پر صاف رکھیں۔