مفتیِ اعظم حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانیؒ

حیات وخدمات

(۱)

بہ قلم:  مولانا اشتیاق احمد قاسمی                                  

ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                   

 

            دارالعلوم دیوبند کے اولین مفتیِ اعظم حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ، تاریخ کی اُن عبقری شخصیات میں سے ہیں، جن کے بغیراسلامیانِ ہند کی تاریخ ادھوری کہلائے گی، آپ بلاشبہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے بعد طبقۂ دیوبند میں سب سے بڑے فقیہ ہیں، علمی تبحر اور فکری وسعت میں آپ کا کوئی ثانی نہیں، ایک فقیہ میں جتنے اوصاف وشروائط مطلوب ہیں، سب آپ کے اندر بہ درجۂ اتم موجود تھے، ان کے علاوہ صبر وتوکل، تقویٰ وطہارت، ریاضت وعبادت، جہدو مجاہدہ، امانت ودیانت، عدالت وثقاہت اور فہم وفراست کی بیش بہا دولت سے قدرت نے آپ کو نوازا تھا، آپ کا قلم زرنگار ایک طرف فقہ وفتاویٰ کی ژرف نگاری کا عادی تھا تو دوسری طرف شعر وادب، مقالہ نگاری اور مضمون نویسی میں، ہم عصروں کے لیے قابلِ رشک تھا۔ اردو، عربی اور فارسی تینوں زبانوں میں نظم ونثر پر بڑی قدرت تھی، ان سب کے باوصف آپ پر فُقاہت غالب تھی، آپ کو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے مسندِ افتاء پر بٹھایا، آپ نے دارالافتاء کو رونق بخشی؛ بلکہ معیار واعتبار عطا کیا،  آج تک فقہائے کرام آپ کے خوشہ چیں ہیں۔

حلیہ اور باطنی اوصاف: حضرت مفتی اعظمؒ کے پوتے مفتی فضیل الرحمن عثمانی نے اپنے بزرگوں سے سن کر اپنے دادا حضرت کا حُلیہ اس طرح رقم فرمایا ہے:

            ’’میانہ قد، نورانی چہرہ، خوب صورت سفید ریش مبارک، سرپرگول ٹوپی، بدن پر کرتا، مغلئی پاجامہ، کرتے پر صدری، صدری میں جیبی گھڑی، آنکھوں پر عینک، ہاتھ میں بید یا چھڑی۔

            معصومیت کے پیکر، مرنجا مرنج، خاموشی پسند، اوپر کی سطح سمندر کی طرح خاموش اور اس کی تہ میں ذہانت، علم، عمل، تقویٰ وورع، دیانت وامانت، اخلاص ودل سوزی، ہمدردی وشفقت کے آب دار موتی۔‘‘ (فقیہ اعظم، ص:۱۱)

ولادت اوراسم گرامی: مفتی اعظم حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی دیوبندیؒ کا تاریخی نام ’’ظفرالدین‘‘ ہے، آپ کی ولادت باسعادت دیوبند میں ۱۲۷۵ھ کو ہوئی۔ آپ تاریخی نام سے مشہور نہ ہوئے۔

نسب: حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ دیوبند کے عثمانی شیوخ میں سے تھے، ان کا سلسلۂ نسب تینتالیس پشت پر بعد ذوالنورین خلیفۂ ثالث حضرت عثمانی غنی رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے، آپ کی اٹھارہویں پشت کی اولاد میں ’’خواجہ ابوالوفا عثمانی‘‘ کا نام آتا ہے، ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ موصوف جلال الدین کبیر الاولیاء پانی پتیؒ (متوفی۷۶۵ھ/۱۳۶۳÷) کے چچازاد بھائی تھے، یہ آٹھویں صدی ہجری میں دیوبند تشریف لائے اور یہیں محلہ ’’محل‘‘ دیوبند میں ہمیشہ کے لیے سوگئے۔ دیوبند کے ’’عثمانی شیوخ‘‘ انھیں کی اولاد ہیں۔

            پورا شجرہٴ نسب اس طرح ہے:

            (۱) حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی (۲) مولانا فضل الرحمن عثمانی (۳) مراد بخش (۴) غلام محمد (۵) غلام نبی (۶) لطف اللہ (۷) محمدعاشق (۸) شیخ فرید عثمانی (۹) ابومحمد (۱۰) محمد حافظ (۱۱) شیخ محمد (۱۲) خواجہ عبدالمالک (۱۳) عبدالعزیز (۱۴) عبدالحکیم (۱۵) سعید (۱۶) شیخ محمد (۱۷) خواجہ فضل اللہ (۱۸) خواجہ ابوالوفاء (۱۹) عبید اللہ (۲۰) حسین (۲۱) عبدالرزاق (۲۲) عبدالحکیم (۲۳) حسن (۲۴) عبداللہ عرف ضیاء الدین (۲۵) یعقوب عرف معزالدین (۲۶) عیسیٰ (۲۷) اسماعیل (۲۸)محمد (۲۹) ابوبکر (۳۰) علی (۳۱) عثمان (۳۲) عبداللہ حرمانی (۳۳) عبداللہ گارزونی (۳۴)عبدالعزیز ثالث (۳۵) خالد (۳۶) ولید (۳۷) عبدالعزیز ثانی (۳۸) شہاب الدین المعروف بہ عبدالرحمن اکبر (۳۹) عبداللہ ثانی (۴۰) عبدالعزیز (۴۱) عبداللہ الکبیر (۴۲) عمرو (۴۳)امیرالمؤمنین عثمان بن عفان بن ابوالعاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مُرہ بن کعب بن لوی بن غالب (فقیہ اعظم، ص:۷)

والد ماجد: حضرت مفتی اعظم کے والد ماجد حضرت مولانا فضل الرحمن عثمانیؒ (متوفی ۱۳۲۵ھ/ ۱۹۰۷÷) دارالعلوم دیوبند کے اولین چھ ارکان شوریٰ میں سے ہیں، قیام دارالعلوم دیوبند کی تحریک میں آپ کا نام بہت نمایاں ہے، ابتدائی تعلیم دیوبند میں حاصل کی، پھر مدرسہ غازی الدین کشمیری گیٹ میں بقیہ نصاب کی تکمیل فرمائی، یہی وہ مدرسہ ہے جس کا نام انگریزوں نے ’’قدیم دلّی کالج‘‘ سے بدل دیا، وہاں استاذ الکل مولانا مملوک العلی سے آپ نے کسبِ فیض کیا، فارسی ادب سے مناست زیادہ تھی، شعر وادب سے خصوصی دلچسپی تھی، حضرت مولانا اصغرحسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ موصوف کو ’’خاقانیِ ہند‘‘ کہتے تھے، تاریخ گوئی میں بھی مہارت تھی، بہت جلد مادئہ تاریخ نکال لیتے تھے۔

            حکومتِ ہند کی طرف سے محکمۂ تعلیم میں مدارس کے ’’ڈپٹی انسپکٹر‘‘ کے عہدہ پر فائز تھے۔

            آپ نے بیالیس سال (۱۲۸۳-۱۳۲۵ھ) دارالعلوم دیوبند کی بے لوث خدمت کی ہے۔

            آپ کے آٹھ صاحب زادوں میں حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب کے علاوہ کئی ایک نے بڑا نمایاں مقام حاصل کیا، جیسے حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی اور علامہ شبیر احمد عثمانیؒ وغیرہ۔

            پوتوں میں قاری جلیل الرحمن صاحب عثمانی دارالعلوم دیوبند میں استاذ رہے اور پڑپوتوں میں حضرت مفتی کفیل الرحمن نشاطؔ عثمانیؒ، دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء میں نائب مفتی رہے، شاعری میں بھی آپ کا مقام بلند تھا، درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ آج بھی آپ کے ایک پڑپوتے جناب مولانا سہیل عزیز دارالعلوم دیوبند کے شعبۂ دینیات میں استاذ ہیں۔

تعلیم وتربیت: حضرت مفتی اعظمؒ کی ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے گھر کے دینی ماحول اور دیوبند کے مکتب میں ہوئی، علم حدیث وفقہ کی تکمیل آپ نے ۱۲۹۸ھ میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سے کی، علومِ ظاہری کی تکمیل کے بعد علومِ باطنی کی تکمیل کے لیے آپ نے حضرت مولانا رفیع الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیعتِ سلوک کیا؛ بالآخر انھیں کے جانشین اور خلیفہ ہوئے۔ (فقیہ اعظم، ص:۱۲)

خدمتِ تدریس: فراغت کے بعد درس وتدریس کے لیے آپ میرٹھ تشریف لے گئے اور تقریباً دس سال (۱۳۰۸ھ) تک وہیں رہے، خلقِ خدا آپ کے فیوض سے بہرہ ور ہوتی رہی۔

دارالعلوم دیوبند میں آپ کی آمد: ۲۷؍ربیع الاول ۱۳۰۹ھ میں آپ کو دارالعلوم دیوبند بلایاگیا، یہاں آکر آپ نے تدریس کے ساتھ، نیابتِ اہتمام کا عہدہ بھی سنبھالا۔ دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء میں فتویٰ نویسی کا کارنامہ ان میں سب سے نمایاں ہے۔

دارالعلوم دیوبند میں افتاء کے منصب پر: ایشیا کی عظیم دینی درس گاہ دارالعلوم دیوبند میں دارالافتاء کا آغاز حضرت مفتی اعظمؒ کے آنے کے ایک سال بعد ۱۳۱۰ھ میں ہوا، اتفاق سے اس کارِعظیم کے لیے ایسی شخصیت کا انتخاب عمل میں آیا جو گویا اسی کے لیے پیداہوئی تھی، حضرت حکیم الاسلامؒ فرماتے ہیں:

            ’’دارالعلوم دیوبند جیسے علمی مرکز کے دارالافتاء کے لیے ایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جس میں خود بھی مرکز بن جانے کی صلاحیتیں موجود ہوں اور علم وتفقہ کی امتیازی استعداد کے ساتھ صلاح وتقویٰ اور برگزیدگی کی شانیں اس میں موجود ہوں؛ چنانچہ قیام کے منصوبے کے ساتھ یہاں کے اکابر کوپہلی فکر منصبِ افتاء اور خصوصیت کے ساتھ دارالعلوم جیسے مقدس ادارہ کے دارالافتاء کے شایانِ شان مفتی کے انتخاب کی ہوئی جس کے مضبوط کاندھوں پر اس عظیم ترین منصب اور وزن دار ادارے کا بار رکھا جائے۔‘‘

            مزید لکھتے ہیں:

            ’’حضرت اقدس (مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہٗ سرپرستِ ثانی دارالعلوم دیوبند) نے اپنی فراستِ باطنی سے وہ تمام جوہر جو ایک ذمہ دار مفتی میں درکار ہیں حضرت مفتی اعظمؒ میں دیکھ کر آپ کو عہدئہ افتاء کے لیے نام زد فرمایا؛ اس لیے حضرت مفتی اعظم دارالعلوم کے مفتی ہی نہیں؛ بلکہ یہاں کے عہدئہ افتاء کا نقطئہ اول بھی ہیں، جس کاآغاز ہی حضرت ممدوح کی ذات گرامی سے کیاگیا، آپ یہاں کے قصرِ افتاء کے لیے خشتِ اول ثابت ہوئے جس پر آگے کی تعمیر کھڑی ہوئی۔‘‘ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۱/۳۴، ۳۶ مکتبہ دارالعلوم دیوبند پہلی اشاعت)

طرز فتویٰ نویسی: فتاوی نویسی میں آپ عبارت آرائی اور لفاظی سے گریز کرتے اور بھاری بھرکم فقہی الفاظ و اصطلاحات استعمال نہ فرماتے تھے؛ بلکہ آپ کا اندازِ بیان بالکل سادہ، رواں دواں اور برجستہ ہوتا تھا، ہر عام اردو خواں آپ کے فتوے کو سمجھ لیتا تھا؛ اسی کے ساتھ ہر لفظ حقیقت شناسی کا آئینہ دار ہوتا تھا، آپ کے فتاویٰ کے مرتب استاذ محترم حضرت مفتی محمد ظفیرالدین مفتاحی رحمۃ اللہ علیہ (مفتی دارالعلوم دیوبند)  اپنا تأثر اس طرح بیان فرماتے ہیں:

            ’’آپ کا اندازِ فکر بالکل سلجھا ہوا صاف ستھرا اور پختہ تھا، کہیں کسی مسئلہ میں آپ تذبذب کی راہ اختیار نہیں کرتے؛ بلکہ مسائل کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں اور جو جوابات تحریر فرماتے ہیں وہ ہر پہلو سے ٹھوس اور مکمل ہیں، کمال یہ ہے کہ دماغ اور حافظہ کبھی خیانت نہیں کرتا، ذہن جب جاتا تو صحت ہی کی طرف، یہی وجہ ہے کہ جوابات بے جا طول اور تکلیف دہ اختصار سے پاک ہیں، اندازِ بیان سلیس اور جامع، معمولی لکھا پڑھا آدمی بھی آسانی کے ساتھ آپ کا جواب سمجھ لیتا ہے، کسی کو کوئی الجھن پیش نہیں آتی ہے۔‘‘

            آگے لکھتے ہیں:

            ’’حضرت مفتی صاحب قدس سرہٗ کا کمال یہ ہے کہ ’’عرفِ زمانہ‘‘ سے کبھی صرفِ نظر نہیں کرتے؛ بلکہ اس پر گہری نظر رکھتے ہیں، اگر کسی مسئلہ کے دو محتلف مفتی بہ پہلو ہیں، تو ایسے موقع پر آپ سہل پہلو کو اختیار کرتے ہیں اور اسی پر فتویٰ دیتے ہیں، ایسی صورت ہرگز اختیار نہیں کرتے جو عوام کے لیے مشکلات پیدا کرنے والی ہو۔‘‘

            حضرت مفتی صاحبؒ مزید لکھتے ہیں:

            ’’اسی طرح فتویٰ ہمیشہ مفتی بہ قول پر دیا کرتے تھے، بڑے سے بڑا عالم بھی اس کے خلاف اپنا رجحان ظاہر کرتا ہے تو اس کی پرواہ نہیں کرتے، جیسے تشہد میں ’’اشارہ بالسبّابہ‘‘ کا مسئلہ ہے، اس میں حضرت مجدد الف ثانیؒ نے مکتوبات میں عدمِ جواز لکھا ہے؛ مگر اسے آپ تسلیم نہیں کرتے۔‘‘ الخ

            فتویٰ نویسی کی مزید خصوصیت بیان کرتے ہوئے حضرت مفتی صاحب لکھتے ہیں:

            ’’اگر کوئی کسی حکم کی علت دریافت کرتا ہے اور عوام میں سے ہے تو اُسے صرف اتنا لکھ کر خاموش کردیتے ہیں کہ خدا ورسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایسا ہی حکم ہے؛ لیکن اگر کوئی عالم پوچھتا ہے تو اسے علمی انداز میں حکم کی روح سمجھانے کی سعی کرتے ہیں۔‘‘ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، ۱/۱۲۳ مکتبہ دارالعلوم دیوبند پہلی اشاعت)

حضرت گنگوہیؒ سے مکاتبت: حضرت مفتی اعظمؒ کو حضرت گنگوہیؒ نے دارالافتاء کے لیے منتخب فرمایا تھا،اگر کوئی مشکل پیش آتی تو ملاقات کے وقت زبانی ورنہ خط کے ذریعہ اسے حل فرماتے تھے، انھیں میں سے ایک مکتوب ہے، جس میں حضرت کے ایک اشکال کا جواب ہے، حضرت مفتی اعظم اپنے ایک مضمون میں ارقام فرماتے ہیں  (جس کو حضرت مولانا عاشق الٰہی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ نے تذکرۃ الرشید میں شامل فرمایا ہے):

            ’’بندہ نے ایک عریضہ میں مِن جملہ چند سوالات کے ایک یہ بھی سوال کیا کہ آیت:  ’’وَأنْ لَیْسَ للإنسان إلّا ما سعٰی‘‘ (ترجمہ: اور انسان کے لیے بس وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی) سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو سوائے اپنے اعمال کے دوسروں کے اعمال سے نفع نہیں پہنچتا؛ حالاںکہ احادیث سے نفع پہنچنا محقق ہے اور جمہور صحابہ وائمہ کا یہ مذہب ہے۔

            اس کے جواب میں من جملہ دیگر جوابات معروضہ کے یہ معنی بھی ارقام فرمائے کہ ’’ماسعیٰ‘‘ سے مراد سعیِ ایمانی لی جاوے تو پھر کچھ خدشہ اور تعارض نہیں؛ کیوںکہ حاصل اس صورت میں یہ ہے کہ انسان کو بدونِ سعی ایمان وبلا حصول وتحققِ ایمان کسی عمل سے نفع معتدبہ نہیں پہنچ سکتا، پس غیر کے اعمال کا نفع بھی اس کو اُسی وقت پہنچ سکتا ہے کہ اس کے اندر ایمان ہو اور سعی ایمانی اسی کی ہو؛ پس درحقیقت انسان کے لیے اپنی ہی سعی سے نفع پہنچتا ہے۔‘‘

            آگے مزید لکھتے ہیں:

            ’’حضرت (گنگوہی) رحمۃ اللہ علیہ کے چند مکتوبات مطبوع ہوے تھے، اُن میں یہ مکتوب موجود ہے، مفصل اس میں دیکھ لیا جاوے۔‘‘ (تذکرۃ الرشید، ج۱، ص:۲۶-۲۷)

(جاری)

*  *  *

------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم‏، شمارہ: 12،  جلد:101‏، ربیع الاول –ربیع الثانی 1439ہجری مطابق دسمبر 2017ء