پروفیسر ڈاکٹر مولانا شمسِ تبریز خاں قاسمی

۱۳۶۴ھ/۱۹۴۵ء - ۱۴۳۴ھ/۲۰۱۳ء

 

از : مولانا نور عالم خلیل امینی‏، چیف ایڈیٹر ”الداعی“ عربی و استاذ ادبِ عربی‏، دارالعلوم دیوبن

 

        ممتاز معاصر فاضلِ دارالعلوم دیوبند، شعبہٴ عربی لکھنوٴ یونیورسٹی کے پروفیسر اور سابق رفیق مجلسِ تحقیقات ونشریاتِ اسلام دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ مولانا پروفیسر ڈاکٹر شمسِ تبریز خاں قاسمی آروی ثم لکھنوی کے بہ وقتِ ظہر شنبہ: ۶/ربیع الثانی ۱۴۳۴ھ مطابق ۱۹/جنوری ۲۰۱۳/، ہارٹ اٹیک کے بعد اچانک وفات پاجانے کی خبر راقم کو اخبار کے ذریعے، اُس وقت ملی، جب وہ اپنے علاج کے سلسلے میں ممبئی (سابق بمبئی) میں قیام پذیر تھا۔ خبر پر جیسے ہی نظر پڑی سخت صدمہ ہوا۔ دنیا میں کس کو ہمیشہ رہنا ہے؟ لیکن جب کوئی کام کا آدمی اِس طرح اچانک روپوش ہوجاتا ہے، تو علم وہنر کے قدردانوں کو جاں گسل رنج والم ہوتا ہے۔ مرحوم بہ وقتِ وفات سنہٴ ہجری کے اعتبار سے ۷۰ سال اور سنہٴ عیسوی کے لحاظ سے ۶۸ برس کے تھے۔

          مرحوم کی نمازِ جنازہ شنبہ - یک شنبہ: ۶-۷/ربیع الثانی ۱۴۳۴ھ = ۱۹-۲۰/جنوری ۲۰۱۳/ کی درمیانی شب میں، اُن کے مکان واقع ”مدح گنج“ کے قریب میدان میں دارالعلوم ندوة العلماء کے عالی قدر مہتمم حضرت مولانا ڈاکٹر سعیدالرحمن اعظمی ندوی مدظلہ نے پڑھائی اور محلہ ”کھدرا“ کے قبرستان ”تکیہ تارن شاہ“ میں اُنھیں سپردِ خاک کیاگیا۔ نمازِ جنازہ اور تدفین میں بڑی تعداد میں عُلَما وطلبہ اور مرحوم کے محبین ومتعارفین واعزا و قدردانوں اور عام مسلمانوں نے شرکت کی۔ دوسرے روز اُن کی وفات کی خبر جیسے ہی مدرسوں اور علم وادب سے وابستہ حلقوں میں پہنچی غم واندوہ کی لہر دوڑ گئی۔ معاصر مشاہیر نے اخبار ورسائل میں اپنے شدید غم والم کا اِظہار کیا۔

          مرحوم نے اپنے پیچھے اپنی اہلیہ کے علاوہ چار لڑکے اور چارلڑکیاں چھوڑی ہیں۔ اُنھوں نے لکھنوٴ میں بودوباس اختیار کررکھی تھی، اُن کی ساری اولادیں اور اہل خانہ اُنھی کے ساتھ لکھنوٴ میں رہتے تھے، جہاں اُنھوں نے ”مدح گنج“ میں سال ہا سال کے چنے ہوئے ”تنکوں“ سے اپنا نشیمن بنالیا تھا۔ اُنھوں نے اپنی پوری عملی زندگی یہیں بتائی۔ کم وبیش پچاس سال کا عرصہ اُنھوں نے علم وادب وظرافت وسلیقہ مندی وبذلہ سنجی کے اِسی شہرِ سخن فہم وسخن سنج میں گزارا اور بالآخر اِسی کی خاک کا پیوند بنے۔

          مولانا شمسِ تبریز ممتاز عالم، محقق اور اردو زبان کے ادیب واہلِ قلم تھے، ساتھ ہی عربی وفارسی کا بہت اچھا مذاق رکھتے تھے، نیز انگریزی اور ہندی بھی ضرورت کے مطابق جانتے تھے۔ اِسلامی اور عام اِنسانی تاریخ کا اُن کا مطالعہ خاصا ٹھوس اور لائقِ اعتماد تھا۔ عربی زبان کی مہارت کے حوالے سے اُنھیں صدر جمہوریہ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

          مولانا شمسِ تبریز خاں دارالعلوم دیوبند میں اپنی طالبِ علمی کے زمانے میں بھی محنت، ذوقِ طلب، شوقِ سفر، مطالعے میں اِنہماک، وقت کی قدردانی، نماز روزے، عبادات وشرعی اَحکام کے ساتھ دارالعلوم کے نظام وقانون کی پابندی اور ادبی ولسانی رجحان کے حوالے سے، طلبہ میں مشہور اور بڑے نیک نام تھے۔ یہ راقم دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوا تو حال آں کہ وہ یہاں سے کئی سال پہلے تعلیمی سلسلے کی تکمیل کے بعد جاچکے اور دارالعلوم ندوة العلماء کی مجلس تحقیقات سے وابستہ ہوچکے تھے؛ لیکن اُن کی تعلیمی محنت وشب بیداری کے حاصل یعنی لائقِ ذکر صلاحیت کی یادوں کی شمع نہ صرف طلبہ کے دلوں میں روشن تھی؛ بل کہ اُس کا خوب صورت اور والہانہ تذکرہ اُن کی زبانوں پر نغمہٴ شیریں بن کر گونج رہا تھا۔

          اِن سطروں کی تحریر کے وقت راقم کے ذہن میں آیا کہ دارالعلوم دیوبند کے موجودہ مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی بنارسی مدظلہ العالی سے، جو مرحوم کے تدریسی دور میں دارالعلوم دیوبند میں ہم عصر تھے؛ کیوں نہ اُن کے سلسلے میں یہ معلوم کیا جائے کہ وہ دارالعلوم میں کس طرح کے طالب علم تھے؟۔ راقم نے دفترِ اہتمام میں سہ شنبہ: یکم ربیع الثانی ۱۴۳۴ھ = ۱۲/فروری ۲۰۱۳/ کو تقریباً دس بجے صبح کو اُن سے ملاقات کی اور گزارش کی کہ وہ مولانا شمسِ تبریز خاں کے متعلق کچھ جانتے ہوں تو راقم کو بتائیں۔ اُنھوں نے بے تکلف جلدی جلدی میں جو کچھ ارشاد فرمایا وہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے:

          ”مولانا شمسِ تبریز خاں قاسمی مرحوم - اللہ اُن کے درجات بلند کرے- طالبِ علمی کے زمانے میں ”شمس تبریز آروی“ کے نام سے معروف تھے؛ کیوں کہ وہ ”بہار“ کے ضلع ”آرہ“ کے تھے۔ وہ کم گو، خاموش طبع، کم آمیز، پابندِ اوقات، پابندِ نماز باجماعت تھے، پڑھائی لکھائی میں انہماک اُن کی شناخت تھی۔ اردو زبان وادب اور فارسی سے اُنھیں بڑی مناسبت تھی۔ وہ ادیبِ کبیر ومفسرِ قرآن حضرت مولانا عبدالماجد دریا آبادیؒ (۱۳۱۰ھ/۱۸۹۲/ - ۱۳۹۹ھ/۱۹۷۸/) سے مسلسل مراسلت میں رہتے تھے۔ میں ”اِحاطہٴ مولسری“ سے تقسیمِ ڈاک کے اوقات میں جب بھی گزرتا ”پیارے“ ڈاکیہ کو پاتا کہ وہ اُن کی ڈاک علاحدہ رکھے ہوتا، جس میں اکثر ”صدقِ جدید“ کا تازہ شمارہ ہوتا؛ کیوں کہ وہ ہفت روزہ تھا اور مولانا دریاآبادی کاکوئی نہ کوئی جوابی خط بھی اکثر رہتا تھا، جس پر کبھی کبھی صرف یہ لکھا ہوتا: ”آپ کا تازہ خط بھی مل گیا، بہت بہت شکریہ“ وہ نمازوں کے اوقات میں بالخصوص ظہر کے وقت اذان کے فوراً بعد مسجدِ قدیم (جو اِحاطہٴ دفتر میں صدر گیٹ کے دائیں جانب واقع ہے) میں آجاتے، مُکَبِّر کی دائیں جانب جگہ لیتے اور سنت کی چار رکعتیں پڑھ کے عموماً ”صدقِ جدید“ کواُس وقت تک بہ غور پڑھتے رہتے؛ جب تک جماعت کھڑی نہ ہوجاتی۔

          اُس زمانے میں ایک اہم واقعہ یہ پیش آیا کہ صوبہٴ یوپی اور صوبہٴ بہار کے طلبہ میں ادبی اور لسانی مقابلہ آرائی اِتنی زور کی ہوگئی کہ وہ ”ادبی تصادم“ اور ”ادبی جھگڑے“ کی حد کو پار کرکے ”عملی جھگڑے“ کے قریب پہنچ گئی۔ اُس زمانے میں ”بہار“ کے تین طلبہ تحریر و اِنشا کے حوالے سے طلبہٴ دارالعلوم میں خاصے مقبول اور معروف تھے: ایک تو یہی ”شمسِ تبریز آروی“، دوسرے شعیب جالوی (جو بعد میں رانچی یونیورسٹی میں شعبہٴ اردو کے پروفیسر اور صدر رہے اور رانچی ہی کی خاک میں آسودئہ خواب ہوگئے اور جو مولانا قاضی مجاہد الاِسلام قاسمیؒ ( ۱۳۵۵ھ/ ۱۹۳۶/- ۱۴۲۳ھ/۲۰۰۲/) کے بھانجے ہوتے تھے) اور تیسرے ”اسرارالحق عسجد القاسمی“ (سابق ناظم جمعیة علماے ہند جو اِس وقت مولانا اسرارالحق قاسمی ایم پی اور تعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے بانی وصدر ہیں۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا نئی دہلی میں ہر ہفتے سال ہا سال سے پابندی سے ملک وملت ومذہب کے مختلف موضوعوں پر اُن کے مضامین بڑے شوق سے پڑھے جاتے ہیں)

          اِن تینوں طلبہ کی وجہ سے سچی بات یہ ہے کہ اِس ”ادبی ولسانی تصادم“ میں ”بہار“ کے طلبہ کا پلڑا بھاری ہورہا تھا۔ ایک بار ”شمسِ تبریز خاں آروی“ مرحوم نے ” بَہارِ بِہار“ کے نام سے ایک رسالہ فارسی نظم میں نکالا یہ پورا رسالہ صرف نظم ہی پر مشتمل تھا، جس میں بہار اور بِہار کے اہلِ کمال کی عظمت بڑے فخریہ انداز میں بیان کی گئی تھی، اِس سے ”تصادم“ کی کیفیت میں بہت شدّت آگئی۔ حضرت مولانا معراج الحق صاحب رحمة اللہ علیہ (۱۳۲۸ھ/۱۹۱۰/- ۱۴۱۲ھ/۱۹۹۱/) نے یوپی اور بہار کے طلبہ کے یہ سارے دیواری رسالے ضبط کرلیے اور اُنھیں دفترِ اہتمام میں جمع کردیا، جن میں بہار کے مذکور الصدر تینوں طلبہ کی ادبی تحریریں، بالخصوص ”شمس تبریز خاں آروی“ کی نگارشات اور بالاَخَصّ اُن کی فارسی نظم پر مشتمل ” بَہارِ بِہار“ کا خاص شمارہ بھی تھا، اُن تحریروں پر حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمیؒ( ۱۳۱۵ھ/۱۸۹۷/ - ۱۴۰۳ھ/۱۹۸۳/) کی اُچٹتی نظر دفترِ اِہتمام میں پڑی، تو آپ نے فرمایا کہ ”منفی ہدف سے قطع نظر، جس کے تحت طلبہ نے یہ تحریریں لکھیں، یہ اپنی جگہ زبان وبیان کے اِعتبار سے خاصی ممتاز ہیں اور اِن طلبہ کے روشن مستقبل کا پتہ دیتی ہیں“۔ (یہاں حضرت مہتمم صاحب: مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی مدظلہ کی گفتگو پر مبنی اِفادات ختم ہوے)

          مولانا شمسِ تبریز خاں قاسمی نرم خوئی ودھیمے پن کا مجسمہ تھے، خاموشی اور کم گوئی اُن کی شناخت تھی، وہ اِنتہائی ضرورت کے وقت اور ضرورت کے بہ قدر ہی بولتے تھے، صاف دل اور پاک نفس اِنسان تھے، زور سے ہنستے نہ قہقہہ لگاتے، وہ بہ مشکل صرف مسکراتے، کسی کی بے آبروئی، تنقید و تضحیک سے اُن کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتے، عموماً وہ کسی سے کوئی واسطہ رکھتے نہ لوگوں کو اُن سے کوئی واسطہ ہوتا، حد درجہ صابر وشاکر اورمتحمل مزاج تھے، جب بھی بات کرتے تو علم ومطالعے کی کرتے اور خاصی ہلکی آواز سے بولتے، اُن کے رہن سہن، لباس وپوشاک اور عام زندگی کے سارے اطوار میں حد درجہ سادگی تھی، کسی کے لیے اُن کی انتہائی سادہ اور معمولی ہیئتِ کذائی سے اُن کے ممتاز فاضل، عالم، وسیع المطالعہ اور ادیب واہلِ قلم ہونے کا اندازہ لگانا بہت مشکل تھا، وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے؛ لیکن تیز چلتے، چلتے ہوے اُن کی نگاہیں زمین پر مرکوز رہتیں، وہ متوسط القامت؛ بل کہ مائل بہ کوتاہ قامتی تھے، بھنویں گھنیریں اور خوب صورت تھیں،کھلا ہوا گندم گوں رنگ، آنکھوں میں شرافت اور شرمیلاپن، جسم متوسط نہ دبلا نہ موٹا، اردو تحریر صاف ستھری، واضح اور بغیر لکیر کے کاغذ پر سیدھی ہوتی، تحریر میں لکھتے وقت کاٹ چھانٹ نہ کرتے۔ راقم نے کئی بار اُن سے پوچھا کہ آپ کس طرح لکھتے ہیں کہ تحریر میں کاٹ چھانٹ نہیں ہوتی، تو وہ کہتے کہ میں الفاظ اور جملوں کو سوچتے وقت ذہن ہی میں بار بار کاٹتا رہتا ہوں، کاغذ پر اُسی وقت لکھتا ہوں جب وہ صحیح اور پختہ شکل میں میرے ذہن میں مُدَوَّن ہوجاتے ہیں؛ البتہ اُن کی ایک عجیب سی عادت تھی کہ وہ لکھتے وقت بار بار قلم کو جھٹکتے تھے؛ کیوں کہ وہ بہت معمولی قلم کی طرح روشنائی بھی بہت معمولی سی استعمال کرتے تھے، جس سے قلم کی نوک بار بار خشک ہوجاتی تھی، اُس کو ترکرنے کے لیے وہ بار بار قلم کو زور سے جھٹکتے تھے؛ تاکہ قلم کی نوک بھیگ جائے اور تحریر میں پریشانی نہ ہو۔ کثرت سے ایسا کرنے کی وجہ سے یہ اُن کی ایسی عادت بن گئی تھی کہ شاید اِس کے بغیر وہ تحریر لکھنے پر قادر نہ تھے۔

          وہ دارالعلوم دیوبند کے اپنے معاصر فضلا میں اردو زبان وادب پر عبور کے حوالے سے خاصے ممتاز تھے۔ اردو میں ان کا اُسلوبِ نگارش علامہ شبلی نعمانی (۱۲۷۴ھ/۱۸۵۷/- ۱۳۳۲ھ /۱۹۱۴/) کے باوقار اسلوب اورمولانا عبدالماجد دریاآبادی (۱۳۱۰ھ /۱۸۹۲/-۱۳۹۹ھ/ ۱۹۷۸/) کے شان دار اسلوب کا مخلوطہ تھا، وہ مُسْتَحْکَمْ، صحیح، خوب صورت، حشووزوائد سے پاک، ادبی مٹھاس سے لبریز اور زبان وبیان کے معیار پر ہر طرح صحیح اُترنے والی اردو نثر لکھتے تھے۔ اِسی کے ساتھ وہ عربی سے اردو میں ترجمہ کرنے والے فن کار اورماہر مترجم تھے۔ عموماً اچھے اہلِ قلم اچھے مترجم اور اچھے مترجم لائقِ ذکر اہلِ قلم نہیں ہوتے، بالخصوص ادبی وفکری زبان کا اُسی طرح کی ادبی وفکری زبان میں ترجمہ اور بھی مشکل کام ہے، جو بہت کم خوش نصیبوں کے حصے میں آتا ہے۔ ترجمے میں دو باتیں ضروری ہیں: امانت دارانہ ترجمہ کیا جائے کہ ”مُتَرْجَمْ منہ“ زبان (جس زبان کاترجمہ کیا جائے) کی کوئی بات ”مُتَرْجَمْ اِلیہ“ زبان میں (جس زبان میں ترجمہ کیا جائے) منتقل ہونے سے رہ نہ جائے۔ دوسری بات یہ کہ مُتَرْجِم (ترجمہ کنندہ)کو دونوں زبانوں پر بھرپور قدرت ہو؛ تاکہ ایک زبان کی ساری نہ سہی تو اکثر خوبیوں اور نزاکتوں کو دوسری زبان میں منتقل کرنے میں اُسے کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ مولانا شمسِ تبریز قاسمی نے دونوں لیاقتوں میں اپنا لوہا منوایا اور برِّصغیر کے بڑے بڑے اُدبا ومُسَلّم اہلِ قلم نے اُن کی دونوں صلاحیتوں کی ہمیشہ داد دی۔ اُنھوں نے اردو میں باقاعدہ تالیف وتصنیف کے علاوہ عربی سے اُردو میں کئی اہم علمی اور ادبی وفکری کتابوں کے ترجمے کیے، جو معیاری اردو میں ترجمے کے لیے قابلِ تقلید نمونہ ہیں۔ یہ ترجمے جب وقت کے مشاہیر علم وادب کی نظر سے گزرے، تو اُنھوں نے اپنے قلمی تبصروں میں نہ صرف اُنھیں سراہا؛ بل کہ یہ تک فرمایا کہ اِن ترجموں سے کہیں سے ترجمے کی بو یا ”ترجمہ پن“ محسوس نہیں ہوتا؛ بل کہ یہ ترجمے اردو میں مستقل تخلیقات ہی معلوم ہوتے ہیں؛چناں چہ حضرت مولانا علی میاں صاحب ندوی رحمة اللہ علیہ (۱۳۳۳ھ/ ۱۹۱۴/ - ۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹/) کی کتاب ”رَوَائِعُ اقْبَال“ کا اُنھوں نے جب ”نقوشِ اِقبال“ کے نام سے عربی سے اردو میں ترجمہ کیا اور یہ ترجمہ اِشاعت پذیر ہوکر اہلِ علم وقلم ونظر کے پاس پہنچا، تو اُنھوں نے جہاں اصل عربی میں تحریر کردہ حضرت مولانا ندوی مرحوم کے افکار و خیالات اور عربیِ مُعَلَّی کی کما حَقُّہ تعریف کی، وہیں ترجمے کی شیریں و شستہ وبرجستہ اردو کی خوبی کو بھی قارئین کے لیے بڑی فراخ دلی سے اجاگر کیا؛ حال آں کہ حضرت مولانا ندوی کی یہ کتاب اُن کی تالیفات میں اپنی ادبیّت، تعبیر و تصویر کی خوبی، فکری گہرائی، خیالات کے بانکپن کی وجہ سے خاصی مشکل ہے؛ کیوں کہ اِس میں شاعرِ اسلام علامہ ڈاکٹر ”محمد اِقبال“ (۱۲۹۰ھ/ ۱۸۷۳/- ۱۳۵۷ھ/۱۹۳۸/) کے عالی قدر افکار وخیالات اور اسلام کی ترجمانی، مسلمانوں کی عظمت بیانی، کے ساتھ اسلامی تعلیمات کی مُعْجِز نمائی اور اسلامی تہذیب وثقافت کی فضیلت مآبی کے بالمقابل مغربی تہذیب کے تخریبی کردار کے بیان میں، اُن کے جادوطراز اشعار اور ہمالیائی لب ولہجے کا، حضرت مولانا ندوی نے اُسی طرح کی جذبات انگیز، ایمان افروز اور قلب وروح کی بھٹی کو گرمادینے والی اَعلی اور اَلبیلی عربی میں تعارف پیش کیاہے۔ یہ کتاب اُن کی عربی نثر کا بہترین نمونہ اور خود اُن کی غیرتِ اسلامی، حمیتِ دینی اور جذبہٴ مومنانہ کی بھی ترجمان ہے۔ اُنھوں نے اِقبال کے آئینے میں قارئین کے سامنے اپنے سوز وساز کو بھی پیش کیا ہے۔ غالباً اِس کتاب کا یہ پہلو بھی بہت اہم اور لائق کشش ہے؛ کیوں کہ اقبال کو وہ چاہتے ہی اِس لیے تھے کہ اِقبال نے اُن کے دل کی بات کہہ دی تھی اور اُن کے زخمِ دل کے لیے شفابخش مرہم فراہم کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اقبال کواپنا ہم راز، ہم سخن اور ہم نوا سمجھتے تھے، دونوں کا درد ایک تھا؛ دونوں کے زخمِ جگر میں مماثلت تھی، دونوں ایک ہی منزل کے راہی تھے، دونوں قافلہٴ حجاز میں کسی ” حُسَیْن“ کو پالینے کا حسین خواب دیکھتے تھے، دونوں اِسلام کے اِقبال اور اُس کی نشاَتِ ثانیہ کے سچے آرزومند اور داعی ونقیب تھے۔ دونوں کے سوز وسازِ رومی اور پیچ وتابِ رازی اور آہ وزاری وشب زندہ داری، کی اصل وجہ بھٹکے ہوے آہو کو پھر سوے حرم لے آنے کی تگ و تاز میں اپنی زندگیِ مستعار میں خاطر خواہ کام یابی سے عدمِ ہم کناری کا شدید تر اِحساس تھا؛ اِس لیے دونوں ایک دوسرے کو زبانِ حال سے کہتے تھے:

آ عندلیب ! مل کے کریں آہ وزاریاں

تو ہائے گل پکار، میں چلّاؤں ہائے دل

          اِس طرح کی کتاب کو اردو ادب کے قالب میں ڈھال دینا مولانا شمسِ تبریز خاں قاسمی کا بڑا کارنامہ تھا، اِسی لیے اردو کے دقیق النظر ادیب وصحافی واِنشا پرداز و مفسرِ قرآن حضرت مولانا عبدالماجد صاحب دریا آبادی نے ”صدق جدید“ میں جہاں حضرت مولانا علی میاں کی زبان کی عظمت و رفعت کی تقریظ کی، وہیں مولانا شمسِ تبریز کی ادبی ہنرمندی کا بھی گن گایا، جو بہت بڑی بات تھی؛ کیوں کہ مولانا دریاآبادی بہ مشکل کسی تازہ واردِ بساطِ ادب وزبان کی زبان وبیان کے حوالے سے مدح سرائی کرتے تھے۔

          مولانا شمسِ تبریز قاسمی کی مطلوبہ علمی وتحریری لیاقت ہی کی وجہ سے حضرت مولانا ندوی نے اپنی مجلسِ تحقیقات ونشریاتِ اسلام ندوة العلماء کے علمی وتحریری رفیق کی حیثیت سے اُن کا انتخاب کیا، جس میں اُنھوں نے ۳/اگست ۱۹۶۶/ (مطابق ۶/جمادی الاخری ۱۳۸۸ھ) سے اپنی ذمّے داریاں انجام دینی شروع کیں۔ اُنھوں نے وہاں سب سے پہلے اپنی اولین اردو تالیف ”مسلم پرسنل لا اور اسلام کا عائلی نظام“ تیار کی؛ پھر ”تاریخ ندوة العلماء“ کی دوسری جلد لکھی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ (۶۶۱ھ/۱۲۶۳/ - ۷۲۸ھ/۱۳۲۸/) کی مشہور کتاب ”اِقْتِضَاءُ الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِیمِ“ کا اردو میں ”اِسلامی وغیر اِسلامی تہذیب“ کے عنوان سے ترجمہ کیا، حضرت مولانا علی میاں صاحب ندوی کی کتاب”رَوَائِعُ اقْبَال“ کا ”نقوشِ اقبال“ کے نام سے اردو میں شان دار وشاہ کار ترجمہ کیا اور مشہور عالم وادیب واہلِ قلم نواب مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی (۱۲۸۳ھ/۱۸۶۷/- ۱۳۶۹ھ/۱۹۵۰/) کی سیرت وسوانح بہ عنوان ”صدریار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی“ تحریر کی، اسی کے ساتھ حضرت مولانا علی میاں کی تالیف وتحریر میں اُن کی علمی وتحریری معاونت کی، اُن کی ہدایت کے مطابق وہ تاریخ وسیرت وسوانح کی ادق اردو وفارسی اور عربی کتابوں سے مطلوبہ زیرتالیف کتابوں اورمقالات کے لیے مواد اکٹھا کرتے یا صحیح مصادر ومراجع کی نشان دہی کرتے۔ انھوں نے حضرت مولانا کی اِملائی خدمت بھی کی۔ وہ جو کام بھی کرتے، خلوص ومحنت اور لگن اور لیاقت سے کرتے؛ اِس لیے حضرت مولانا اُنھیں دل سے درازیِ عمر، رزق اور صحت ووقت میں برکت کی ہمیشہ دعا دیتے تھے۔

          اِسی کے ساتھ اُنھوں نے بہت سے مقالات ومضامین مختلف علمی وادبی ولسانی واسلامی موضوعات پر، برّصغیر کے بہت سے باوقار رسالوں میں لکھے، جو شوق وذوق سے پڑھے گئے۔ البتہ افسوس ہوتا ہے کہ اُن کے ادبی وعلمی مقام ومرتبے کے بہ قدراُن کو علمی وادبی معاشرے میں وہ عزت وشہرت نہ مل سکی، جس کے وہ مستحق تھے، وہ مادی اسباب اورمال ومنال سے بھی تہی مایہ ہی رہے؛ کیوں کہ ہمارے معاشرے میں کسی کی ازخود قدر نہیں ہوتی؛ بل کہ خواہش مند اور ”ہوشیار آدمی“ اپنی قدر خود کروالیتا ہے۔ اپنی ذات وصفات کا ڈھول پیٹنے والے اور اپنی شخصیت کی عظمت پر لوگوں کو ایمان لے آنے پر مجبور کردینے والے اِنسانی سوسائٹی میں بڑا نام پالیتے ہیں اور اُن کی ساری ضرورتیں ازخود پوری کردی جاتی ہیں؛ لیکن خاموشی سے صرف کام میں لگے رہنے والے کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا، خواہ وہ فی الواقع کتنا بڑا کیوں نہ ہو اوراُس نے خونِ جگر جلاکے اُمت اور ملت کے لیے کتنا مفید اور دیرپا کام کیوں نہ کیا ہو۔ مولانا شمسِ تبریز قاسمی اور اُن جیسے اہلِ کمال - جنھیں خونِ دل لٹانے کے بعد بھی معاشرے میں سرخ روئی نہیں مل پاتی- کی زبانِ حال سے یہ صدا ہمیشہ سننے کو ملتی رہے گی:

ھَنِیئًا لِأَرْبَابِ النَّعِیْمِ نَعِیمُھُمْ

وَلِلْعَاشِقِ المِسْکِینِ مَا یَتَجَرَّعُ

          اہلِ نعمت وثروت کو اُن کی نعمت وثروت مبارک ہو۔بیچارے عاشق کے لیے تو تلخ کامی کا وہ گھونٹ ہی مقدر ہے جس کو وہ مسلسل پی رہا ہے۔

          مرحوم نے ندوة العلماء کی ”مجلس تحقیقات ونشریاتِ اِسلام“ میں تقریباً ۱۹/سال تک علمی وتحریری کام کیا یعنی ۳/اگست ۱۹۶۸/ (۶/جمادی الاُخری ۱۳۸۸ھ) سے ۱۴/جنوری ۱۹۸۷/ (۱۷/جمادی الاُخری ۱۴۰۷ھ) تک۔ اس کے بعد وہ ۱۵/جنوری ۱۹۸۷/ (۱۸/جمادی الاُخری ۱۴۰۷ھ) کو لکھنوٴ یونیورسٹی کے شعبہٴ عربی سے ریڈر پھر پروفیسر کی حیثیت سے وابستہ ہوگئے؛ کیوں کہ اُنھوں نے اسی یونیورسٹی کے اسی شعبے سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرلی تھی؛ یہاں تاحیات کام کرتے رہے، وہ اپنی بے نفسی کی وجہ سے یہاں سارے تدریسی وغیرتدریسی عملہ وطلبہ میں بہت مقبول ومحبوب رہے؛ کیوں کہ وہ کبھی کسی کے لیے مضر رہے، نہ اپنی زبان اور ہاتھ سے کسی کو نقصان پہنچانے کی سوچا۔ ایسا آدمی جہاں رہتا ہے، لوگ اُس سے محبت کرنے پرمجبور ہوتے ہیں۔

          جیساکہ راقم کو یاد ہے، وہ اواخرِ ذی الحجہ ۱۳۹۱ھ مطابق اوائلِ فروری ۱۹۷۲/ میں حضرت مولانا علی میاں صاحب کی خدمت میں پہنچا، پہلے دوتین ماہ اُس کا قیام حضرت مولانا کے وطن ”تکیہ کلاں“ رائے بریلی میں رہا، پھر وہ دارالعلوم ندوة العلماء میں بہ حیثیت استاذ کام کرنے لگا، تکیہ اور دارالعلوم ندوة العلماء میں مولانا شمسِ تبریز سے متعارف ہوا اور تقریباً روزانہ ہی حضرت مولانا کی تصنیفی وتحریری مجلس میں اُن سے ملاقات ہوتی رہی، جو ناشتے کے بعد سے ظہر سے ذرا پہلے کے دورانیے میں ہوا کرتی تھی، تقریباً دس سال مولانا شمسِ تبریز کو بہت قریب سے دیکھنے اور اُن کی شخصیت کی گہرائیوں میں اُترنے کا موقع ملا، راقم نے اُنھیں اُسی طرح کا پایا جس کی طرف اُس نے سطورِ بالا میں اِشارہ کیا ہے۔ اُن کے ساتھ بار بار بازار بھی جانے کا موقع ملا اور کئی بار ”حضرت گنج“ کے نسبتاً ”متمدن و مہذب“ بازار جانے کا بھی اتفاق ہوا جہاں اُن کے لکھنوی اُدَبا وشعرا دوستوں کی متعدد چائے خانوں میں بے تکلف مجلسیں برپا ہوتی تھیں اور وہ موقع ملنے کی صورت میں، اُن میں ضرور شرکت کرتے تھے۔ بارہا اُن کے ساتھ ”رائے بریلی“ آمد ورفت کی بھی صحبت ملی اور سفر کی راہ سے، جس میں آدمی صحیح طور پر جانا اور پرکھا جاتا ہے، اُنھیں سمجھنے کا موقع ملا۔ کہاجاسکتا ہے کہ راقم کو اُنھیں اِس طرح قریب دیکھنے سمجھنے کا موقع ملا کہ بعض دفعہ فردِ خاندان کو بھی نہیں ملتا۔ راقم نے اُنھیں پایا کہ وہ بہت سادہ دل، سادہ مزاج آدمی تھے، وہ غالباً اپنے آپ کو بھی زیادہ نہیں جانتے تھے، نہ اُنھیں اپنا غم ستاتا تھا، نہ اپنے اہلِ خانہ کا، ایسا آدمی دوسروں کو کوئی ضرر پہنچانے کی ”صلاحیت“ سے بالکل عاری ہوتا ہے۔ وہ بہت سارے اُن گناہوں سے محفوظ تھے جو فضول گوئی، کثرتِ کلام اور پُرگوئی کا نتیجہ ہوتے ہیں اور حدیث شریف کے مطابق بہت سے لوگوں کے لیے جہنم رسید ہونے کا واحد سبب ہوں گے۔ آج سے کم وبیش ۳۳ سال قبل راقم نے اُنھیں اِسی حالت میں چھوڑا تھا، اُس کے بعد اُن سے کبھی ملاقات نہ ہوسکی؛ لیکن توقع ہے کہ اِسی حالت پر اُن کی موت واقع ہوئی ہوگی۔ اللہ بال بال اُن کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس کا مکین بنائے، حضور … اور آپ کے صحابہ کا پڑوس نصیب کرے اور تمام لغزشوں سے جن سے کوئی فردِ بشر مُبَرَّا نہیں درگزر فرمائے اور پس ماندگان اور تمام محبین کو صبرِ جمیل واجرِ جزیل سے نوازے! (آمین)

مختصر سوانحی خاکہ

*       نام:      شمسِ تبریز خاں بن فخرالدین احمد خاں

*       وطن اصلی (جاے پیدایش) بھوج پور، ضلع آرہ، بہار۔

*       تاریخ پیدایش (دارالعلوم دیوبند میں داخلے کے وقت کے اندراج کے مطابق):

          ۱۵/شعبان ۱۳۶۴ھ (۱۷/جون ۱۹۴۵/)

*       تعلیم: ابتدائی تعلیم ”مدرسہ حنفیہ فرقانیہ“ شہر ”گونڈا“ یوپی میں حاصل کی اور متوسط واعلیٰ تعلیم دارالعلوم دیوبند میں جہاں وہ ۲۲/شوال ۱۳۸۰ھ (۱۲/مارچ ۱۹۶۰/) کو داخل ہوے اور شعبان ۱۳۸۴ھ (نومبر ۱۹۶۴/) میں دارالعلوم سے فراغت حاصل کی۔

*       دورہٴ حدیث شریف کے سال کتابوں میں حاصل کردہ نمبرات کی تفصیل مع متعلقہ اساتذئہ گرامی (یاد رہے کہ دارالعلوم دیوبند میں اُس وقت آخری نمبر ۵۰ پچاس ہوا کرتا تھا، دارالعلوم میں ۵۰ کی بہ جائے ۱۰۰ نمبر کا اِجرا تعلیمی سال ۱۴۳۱ھ - ۱۴۳۲ھ کے ششماہی امتحان سے ہوا):

          ۱- بخاری شریف: ۴۷= حضرت مولانا سید فخرالدین احمد (۱۳۰۷ھ/ ۱۸۸۹/- ۱۳۹۲ھ/ ۱۹۷۲/) ۲- ترمذی شریف: ۴۱= حضرت مولانا علامہ محمد اِبراہیم بلیاوی (۱۳۰۴ھ/ ۱۸۸۶/ -۱۳۸۷ھ/۱۹۶۷/) ۳- مسلم شریف: ۴۰ = حضرت مولانا بشیراحمد خاں (متوفی شنبہ: ۸/جمادی الاخری ۱۳۸۶ھ مطابق ۲۴/ستمبر ۱۹۶۶/) ۴- ابوداود شریف: ۴۲= حضرت مولانا سید فخرالحسن (۱۳۳۲ھ/۱۹۰۵/-۱۴۰۰ھ/۱۹۸۰/) ۵-طحاوی شریف: ۴۳= حضرت مولانا سید فخرالحسن۶- ابن ماجہ شریف: ۳۵= حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند (۱۳۱۵ھ/۱۸۹۷/- ۱۴۰۳ھ/ ۱۹۸۳/) ۷- نسائی شریف: ۳۵= حضرت مولانا شریف الحسن دیوبندی (۱۳۳۹ھ /۱۹۲۰/ - ۱۳۹۷ھ/۱۹۷۷/) ۸-شمائلِ ترمذی: ۴۳= حضرت مولانا سید فخرالحسن۹- موطأ مالک: ۴۵ = حضرت مولانا بشیراحمد خاں۱۰-موطأ محمد: ۳۹= حضرت مولانا عبدالاحد دیوبندی (۱۳۲۹ھ/۱۹۱۱/- ۱۳۹۹ھ/۱۹۷۹/)

*       عملی زندگی: (۱) ۳/اگست ۱۹۶۸/ (۶/جمادی الاُخری ۱۳۸۸ھ) تا ۱۴/جنوری ۱۹۸۷/ (۱۷/جمادی الاُخری ۱۴۰۷ھ) مجلسِ تحقیقات ونشریاتِ اسلام ندوة العلماء لکھنوٴ میں بہ حیثیت علمی رفیق، تالیفی وتصنیفی ذمے داریاں انجام دیں۔

          (۲) اس کے بعد ۱۵/جنوری ۱۹۸۷/ (۱۸/جمادی الاخری ۱۴۰۷ھ) تا وفات ۱۹/جنوری ۲۰۱۳/ (۶/ربیع الاول ۱۴۳۴ھ) لکھنوٴ یونیورسٹی میں شعبہٴ عربی میں پروفیسر کے عہدے پر فائز رہے۔

*       تالیفات: ہندوستان میں عہد اسلامی میں عربی زبان وادب، تاریخ ندوة العلماء جلد دوم، صدریار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی، مسلم پرسنل لا اور اسلام کا عائلی نظام۔

*       تراجم: ترجمہ از عربی کتاب ”اِقْتِضَاءُ الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِیمِ“ تالیف شیخ الاسلام ابن تیمیہ بہ عنوان ”اسلامی وغیر اسلامی تہذیب“ ترجمہ از عربی کتاب ”رَوَائِعُ اقْبَال“ تالیف حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، بہ عنوان ”نقوشِ اقبال“ ایک مصری فاضل ”متولی یوسف چلپی“ کی عربی تالیف کا اردو میں ”مسیحیت“ کے عنوان سے ترجمہ کیا، جو ان اِضافوں اور تحقیقی تحریر کی وجہ سے جو انھوں نے اپنے قلم سے لکھی، ان کا اردو ترجمہ اصل عربی سے بھی خوب تر مانا گیا۔ اِسی کے ساتھ اُنھوں نے بہت سے علمی وادبی باوقار رسالوں کو اپنے رشحاتِ قلم سے زینت بخشی، جنھیں جمع کردیا جائے تو کئی کتابیں تیار ہوسکتی ہیں۔

*       وفات: شنبہ: ۶/ربیع الاول ۱۴۳۴ھ مطابق ۱۹/جنوری ۲۰۱۳/ کو بہ وقتِ ظہر، لکھنوٴ میں ہوئی۔ شنبہ - یک شنبہ: ۶-۷/ربیع الاول = ۱۹-۲۰/جنوری کی شب میں نماز جنازہ بعد نماز عشا اُن کے گھر کے قریب ”مدح گنج“ لکھنوٴ میں ہوئی اور ”تکیہ تارن شاہ“ قبرستان واقع محلہ ”کھدرا“ میں تدفین عمل میں آئی۔ بہ وقتِ وفات اُن کی عمر بہ حساب سنہٴ عیسوی ۶۸ سال اور بہ حساب سنہٴ ہجری ۷۰ سال تھی۔

***

---------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 5 ‏، جلد: 97 ‏، رجب 1434 ہجری مطابق مئی 2013ء