دارالعلوم دیوبند میں

مجلس عاملہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کااہم اجلاس

ازقلم: (مولانا) شوکت علی قاسمی بستوی‏، استاذ دارالعلوم دیوبند و ناظم عمومی رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ

 

مورخہ ۱۸/ جمادی الثانیہ ۱۴۲۶ھ مطابق ۲۵/جولائی ۲۰۰۵/ بروز دوشنبہ دفتر تنظیم و ترقی دارالعلوم دیوبند میں مجلس عاملہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم کا پانچواں اجلاس، حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند و صدر رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ زید مجدہم کی زیرصدارت منعقد ہوا۔ نظامت کے فرائض حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب نائب مہتمم و استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند زیدمجدہم نے انجام دئیے۔

اجلاس کا آغاز سو ا آٹھ بجے جناب قاری شفیق الرحمن صاحب استاذ تجوید دارالعلوم کی تلاوت سے ہوا۔ حضرت ناظم اجلاس نے رابطہ کی اہمیت اور اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔

خطبہٴ افتتاحیہ

بعد ازاں حضرت صدر اجلاس دامت برکاتہم کی طرف سے حضرت ناظم اجلاس زیدمجدہم نے خطبہٴ افتتاحیہ پیش فرمایا۔

خطبہٴ افتتاحیہ میں فرمایاگیا تھا کہ:

مدارس اسلامیہ کے اساسی مقاصد میں علوم کتاب و سنت کی تعلیم، اسلامی تعلیمات کی تبلیغ و اشاعت، دین اسلام کا تحفظ و دفاع، مسلمانوں کی دینی و ملّی رہنمائی، اسلام کے خلاف اٹھنے والی تحریکات اور فتنوں کا تعاقب اور بیخ کنی اور اسلامی معاشرے کی دینی وملّی ضروریات کی تکمیل ہے، ان مقاصد کے حصول کے لیے موجودہ رائج نصاب نہایت ہی کافی اور مفید ہے اس لیے مدارس کے نصاب میں کسی بنیادی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔

حضرت صدر اجلاس دامت برکاتہم نے مدارس کے خلاف جاری پروپیگنڈے کی مہم پر اپنے افسوس کا اظہار فرمایا اور اسے مدارس کے خلاف منصوبہ بند سازش کا ایک حصہ قرار دیا۔ انھوں نے فرمایا کہ ”ان مدارس کا جرم صرف یہ ہے کہ یہ ملک و ملت اور انسانیت کے لیے ، خیر و فلاح کے سرچشمے ہیں، رشد وہدایت کے مینار ہیں، ایسے اہل حق، علماء اور صالحین پیدا کررہے ہیں جو دین کی حقیقی روح کی حفاظت کرتے ہیں، فرزندان اسلام کو آب حیات فراہم کرتے ہیں، ملک کو امن پسند، فرض شناس اور دیانت دار شہری عطا کرتے ہیں، انسان دوستی اور صلح وآشتی کا درس دیتے ہیں“۔

خطاب حضرت امیر الہند مولانا سید اسعد مدنی صاحب دامت برکاتہم

خطبہٴ افتتاحیہ کے بعد حضرت امیر الہند، فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی دامت برکاتہم رکن شوریٰ دارالعلوم و صدر جمعیة علمائے ہند نے اپنے کلیدی اور بصیرت افروز خطاب سے محظوظ فرمایا۔ حمد و صلاة کے بعد حضرت والا نے فرمایا :

”ابھی صدر محترم کے ارشادات آپ حضرات نے سماعت فرمائے۔ ان میں جہاں مدارس اسلامیہ کے اصل کام کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، وہیں مختلف قسم کے جو فتنے دینی تعلیم اور اسلام کے خلاف دنیا میں اور خود اس ملک میں ہیں ان کا حل تلاش کرنے کی طرف بھی متوجہ کیاگیا ہے۔

اس وقت جو صورت حال کئی برسوں سے چل رہی ہے اس کے پیچھے صہیونی اداروں اور تنظیموں کے منصوبہ بند پروگرام ہیں، انکا مقصد ساری دنیا میں مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچانا، اوران کے تعلیمی اداروں اور تنظیموں کا وجود ختم کرنا ہے۔ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے وہ ان اداروں پر بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا بے بنیاد الزام لگارہے ہیں انھیں بدنام کررہے ہیں، ہمیں اس ملک میں خاص طور پر مدارس اسلامیہ کے تحفظ کے لیے بیحد حساس رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر ان مدارس کو نقصان پہنچا تو ملک میں دین کی خدمت انجام دینا بڑا مشکل ہوجائے گا،اور بیحد صبر آزما حالات سے گذرنا پڑے گا۔ ہمیں بڑی سوجھ بوجھ اور جاں فشانی کے ساتھ درپیش خطرات اور مشکلات کا ازالہ کرنے کی فکر کرنی چاہئے۔

دنیا کے بہت سے ممالک، مصر، پاکستان اور بنگلہ دیش وغیرہ، مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ لوگوں کے ساتھ بیحد سخت اقدامات کررہے ہیں؛ بہت سے علماء کو گرفتار کرلیاگیا ہے، بہت سے مدارس بند کردئیے گئے ہیں۔ اس لیے یہ مدارس اسلامیہ کے لیے بڑا خراب وقت ہے۔ اسرائیل سالہا سال سے اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ مدارس کو زکوٰة وغیرہ کی شکل میں جو امداد ملتی ہے اس کو بند کرادیا جائے۔

حضرت والانے فرمایا کہ یہ فتنے اس لیے پنپتے ہیں کہ ہم نے اصل راستہ اور اکابر کا طریقہ چھوڑ دیا ہے۔ توکل، اخلاص اور للہیت میں کمی آرہی ہے۔ شان دار قسم کی زندگی کا شوق بڑھ رہا ہے، دشمنوں کے پروپیگنڈے کو اس سے تقویت ملتی ہے، ہمارے اکابر نے بڑی بے سروسامانی کے ساتھ بوریوں پر بیٹھ کر چھپروں میں رہ کر دین کی خدمت کی تھی، اس میں جتنی کمی آئے گی صورت حال اتنی ہی خراب ہوجائے گی۔

ہمیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کے دفعیہ اور مقابلے کے لیے کمربستہ رہنا چاہئے، اور اپنے تمام تر وسائل کااستعمال کرنا چاہئے۔ آج کا ایک بڑا فتنہ قادیانیت ہے، پورے ملک میں ان کے ہزاروں مبلغین کام کررہے ہیں، اور مسلمانوں کو مرتد بنارہے ہیں، اسی طرح انکار حدیث کا فتنہ ہے جو بری طرح پھیل رہا ہے۔ عیسائی مشنریاں ہیں جو پورے ملک میں، انسانی خدمت کے نام پر، مالی مدد کے نام پر، علاج معالجہ کے نام پر، رفاہی کاموں کے نام پر لوگوں کے دین سے کھلواڑ کررہے ہیں۔

غیر مقلدین ہیں جو حدیث کے نام پرمسلمانوں کو اہل حق سے بیزار اور دور کررہے ہیں ایک غیرمقلد عالم نے لکھا تھا کہ اگر کوئی شخص مسلمان ہوجائے تو مجھے خوشی نہیں ہوتی۔ حنفی اگر غیرمقلد بن جائے تو زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ پورے ملک میں غیرمقلدین نے ادھم مچا رکھی ہے، اپنے اپنے علاقوں کاجائزہ لیجئے۔ فتنوں کو دیکھئے اور ان کی بیخ کنی کے لیے کمربستہ رہیے، رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کی مجلس عاملہ کے اس اجلاس میں سرجوڑ کر بیٹھئے اور فتنوں اور مشکلات و مسائل کے ازالے اور مقابلے کے لیے تدبیریں کیجئے۔ اللہ تعالیٰ ہماری رہنمائی فرمائے اور اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔

خطاب حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب قاسمی زیدمجدہم

حضرت امیر الہند دامت برکاتہم کے بعد حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب قاسمی استاذ حدیث دارالعلوم و مدیر ماہنامہ دارالعلوم ، زیدمجدہم نے اپنے اہم خطاب میں حمد وصلاة کے بعد فرمایا:

محترم حضرات! پورے ملک کے چیدہ علمائے کرام اور دارالعلوم دیوبند کے بڑے اساتذئہ کرام تشریف فرما ہیں جو بڑے علم وفہم، تجربہ اور صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ان حضرات کی موجودگی میں مجھے گفتگو کا حکم دیاگیا ہے، جو میری سمجھ سے باہر ہے بہرحال تعمیل ارشاد میں چند باتیں پیش خدمت ہیں۔

عام طور پر یہ سمجھاجاتا ہے کہ سیاسی انقلاب محض سیاسی انقلاب ہوتا ہے، حالاں کہ ایسی بات نہیں۔ سیاسی انقلاب انسان کی زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب پیدا کرتا ہے۔ چاہے دین و مذہب ہو، چاہے اقتصادیات و معاشیات ہوں یا معاشرت ہو سب اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے اپنی بالغ نظری سے یہ سمجھ لیا تھا کہ سیاسی انقلاب بہت قریب ہے۔انھوں نے امت مسلمہ کے لیے انقلاب کے بعد پورا لائحہ عمل مرتب کردیاتھا۔ وہ تھا (۱) ماضی کے ساتھ رابطہ (۲) صحیح نصب العین کی تعیین (۳) احساس ذمہ داری کے ساتھ بھرپور و مسلسل جدوجہد قوم کا ماضی کے ساتھ رابطہ ایسا ہے جیسا کہ درخت کا رابطہ جڑ کے ساتھ، جڑ سے منقطع ہوکر درخت کھوکھلا اور بے جان ہوجائے گا۔ ماضی سے رابطہ کے سلسلہ میں ہم کسی مصالحت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوسری بات ہے صحیح نصب العین کی تعیین۔ قرآن کریم نے خود ہمارا نصب العین مقرر کردیاہے کہ اس خیر امت کو لوگوں کی نفع رسانی کے لیے پیدا کیاگیا ہے۔ اور اس کا ذریعہ ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ تیسری بات ہے احساس ذمہ داری۔

جب سیاسی انقلاب آیا تو کشمکش شروع ہوئی، اور تین طبقے پیداہوئے ایک طبقہ وہ ہے جو ”قدیم“ سے ایک انچ ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے اس کے برخلاف وہ طبقہ ہے جو قدیم اسلام کو اپنی رہنمائی کے لیے کافی نہیں سمجھتا، تیسرا طبقہ درمیان کا ہے جو خذ ما صفا، دع ما کدر پر عمل پیرا رہا۔ ہمارے اکابر اسی تیسرے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند اسی نہج پر قائم کیاگیا ہے، یہ ان کی احساس ذمہ داری کا مظہر ہے۔ سیاسی انقلاب کی کوکھ سے پیدا ہونے والے اضمحلال، اسلام بیزاری، انکار شریعت، ارتداد اور اسلام مخالف ماحول کے مقابلے کے لیے دارالعلوم قائم کیاگیا اور وہ اپنے مذکورہ مقاصد کے حصول میں بیحد کام یاب رہا۔ اکابر کی خدمت کا نتیجہ ہے کہ اسلام کو آپ جتنا ہندوستان میں مستحکم پائیں گے اتنا کہیں اور نہیں پائیں گے۔

آج مدارس اسلامیہ کو جو چیلنج درپیش ہیں انھیں بڑی فراخ دلی کے ساتھ قبول کرنا ہے مقابلہ کرنا ہے۔ اکابر کی امانت ہمارے سپرد ہے۔ اس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ آج کے اجلاس میں پوری دانش مندی، بالغ نظری اور وسعت ذہن کے ساتھ غور و فکر کے بعد اسلام اور مدارس اسلامیہ کے تحفظ اورمشکلات کے لیے کوئی جامع و ہمہ گیر لائحہ عمل اور منصوبہ بنانا ضروری ہے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

خطاب حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مدظلہم

حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم رکن شوریٰ دارالعلوم و شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ بنارس نے حمد و صلاة کے بعد فرمایا:

”ایک ضروری مسئلے کی طرف آپ حضرات کی توجہ مبذول کرانی ہے۔ اس وقت غیرمقلدیت کا فتنہ سراٹھائے ہوئے ہے اور پوری توانائی کے ساتھ مسلک حق سے نبرد آزما ہے۔ ملک کا کوئی حصہ اس شر سے خالی نہیں ہے بہت سے حضرات غیرمقلدین کے ساتھ ہمارے اختلاف کو فقہاء اربعہ کے اختلاف کی نظر سے دیکھتے ہیں، کہ جس طرح حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی چار مسلک ہیں ان کے درمیان جزئیات میں اختلاف ہے اور چاروں مسلک برحق ہیں اسی طرح ایک فقہی مسلک وہ بھی ہے۔

میرے بزرگو! ہمارا غیرمقلدین کے ساتھ اختلاف جزئیات اور فروع کا نہیں بلکہ اصول اور نظریات کا ہے۔ یہ نام نہاد سلفیت، معتزلہ، خوارج، مرجیہ اور کرامیہ کی طرح غلط عقیدے والی جماعت ہے یہ براہ راست قرآن و سنت سے مسائل اخذ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اجماع کی ان کے یہاں کوئی حیثیت نہیں، قیاس کو ابلیس کا کام کہتے ہیں، صحابہ کے اجماع، ان کے اجتہادی فیصلوں کے منکر ہیں۔ تراویح کی رکعتوں کا مسئلہ ہو، تین طلاقوں کے واقع ہونے کا مسئلہ ہو یا جمعہ کی اذان ثانی کا مسئلہ ہوان میں یہ امت کے سواد اعظم سے منحرف ہوکر اپنی الگ راہ بناتے ہیں۔ یہ معتزلہ اور خوارج کی طرح اہل حق کی تکفیر میں جری ہیں، تقلید کو شرک فی العبادة کہتے ہیں۔ الدیوبندیة نامی کتاب میں مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی پر کفر کا فتوی لگایا ہے محض اس بات پر کہ حضرت مولانا مرحوم حضور اقدس … کے اقدام عالیہ کی طرف دیر تک سرجھکائے مراقبہ میں بیٹھے رہے۔ چند سال قبل جمعیة علمائے ہند کی طرف سے تحفظ سنت کانفرنس نئی دہلی میں ہوئی تھی اور دارالعلوم کے تعاون سے غیرمقلدین کے رد پر نہایت جامع اور مفید سیٹ تیار کیا تھا۔ اس کے بڑے اچھے اثرات مرتب ہوئے تھے۔ اسی طرح اب بھی منظم کام کی ضرورت ہے۔ مسئلہ کی خطرناکی کا پورا احساس لوگوں کو نہیں ہے۔ قادیانیت، چکڑالویت اورانکار حدیث کی بنیاد غیرمقلدیت سے بڑی ہے، محمد حسین بٹالوی صاحب نے اقرار کیا ہے کہ پچیس سال کے تجربہ سے مجھے یہ بات معلوم ہوئی کہ بے علمی کے ساتھ مطلق تقلید کو چھوڑ دینا دہریہ بننے اور اسلام کو خیرباد کہنے کا جتنا موثر ذریعہ ہے اتنا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں۔ دین کی بنیادوں کی حفاظت اور رسول اکرم … کی سنت مطہرہ کے تحفظ کے لیے غیرمقلدین سے مقابلہ ایک اہم دینی فریضہ ہے۔ اوراس سے غفلت نہ ہونی چاہئے۔ یہ صحابہ کی توہین کرتے ہیں، قاری عبدالرحمن صاحب پانی پتی شاگرد رشید شاہ اسحاق صاحب فرماتے ہیں کہ عبدالحق بنارسی نے خود میرے سامنے یہ کہا کہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) علی سے لڑکر مرتد ہوگئی تھی۔ اور اگر اس نے توبہ نہ کی ہوگی تو جہنم میں جائے گی۔ (نعوذ باللہ من ذلک)

اس لیے ان کے تعاقب کے لیے منظم جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں کوئی جامع لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔ وآخردعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔

ایجنڈے کے موضوعات پر غور و خوض

بعد ازاں ایجنڈے کے موضوعات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایجنڈے کی دفعہ ع۱ کے تحت راقم السطور نے سابقہ اجلاس عاملہ کی کارروائی پڑھ کر سنائی اور حضرت صدر اجلاس دامت برکاتہم کے دستخط سے اس کی توثیق عمل میں آئی۔ پھردفعہ ع۲ کے تحت ناچیز نے پچھلے سالوں میں مرکزی دفتر اور صوبائی شاخوں کے ذریعہ انجام دئے گئے کاموں پر مشتمل ایک رپورٹ پیش کی جس پراطمینان کا اظہار کیاگیا۔ دفعہ ع۳ کے تحت رابطہ مدارس اسلامیہ کے لیے ناظم عمومی کے انتخاب کی کارروائی ہوئی۔ حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب زیدمجدہم نے دستورالعمل رابطہ مدارس کی دفعہ ع۱۲ پڑھ کر سنائی کہ ”رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کا ایک ناظم عمومی ہوگا جسکا انتخاب صدر صاحب بمشورہ مجلس عاملہ کریں گے“ اسکے بعد دفعہ ع۱۳ بھی پڑھی گئی جس میں ناظم عمومی کی ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں۔ حضرت صدر اجلاس دامت برکاتہم نے حضرات ارکان سے ناظم عمومی کیلئے تحریری طور پر نام پیش کرنے کیلئے فرمایا، جو نام آئے ان پر غور کیاگیا اور حضرت صدر اجلاس کی طرف سے حضرت ناظم اجلاس مولانا قاری محمد عثمان صاحب زیدمجدہم نے نتیجہ کا اعلان ان الفاظ میں فرمایا:

”ناظم عمومی کے جو کام دستورالعمل میں مذکور ہیں ان میں سے کئی کام مولانا شوکت علی صاحب قاسمی بستوی ناظم دفتر رابطہ، حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم کی ہدایت کے مطابق پہلے سے انجام دے رہے ہیں اور اس وقت زیادہ ارکان حضرات نے نام بھی ناظم عمومی کے لیے انہی کا پیش کیا ہے، لہٰذا مولانا شوکت علی قاسمی بستوی کو رابطہ کاناظم عمومی منتخب کیاجارہا ہے۔“

راقم السطور نے معذرت پیش کی اور عرض کیا کہ بندہ اس عظیم ذمہ داری کا اہل نہیں ہے۔ دارالعلوم کے موقر اساتذئہ کرام میں سے کسی صاحب کا انتخاب فرمایاجائے۔ بندہ ان کے ماتحت دفتر کا کام انجام دیتا رہے گا، لیکن معذرت قبول نہ ہوئی، اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب خاموش کارگذار مہتمم دارالعلوم اور دوسرے اکابر نے حکم فرمایا کہ آپ کام کرو ہم سب دعا کریں گے۔ انشاء اللہ، اللہ کی مدد شامل حال رہے گی۔

اس کے بعد ایجنڈے کی دفعہ ع۴ صوبائی شاخوں کو فعال بنانے ع۵ نظام تعلیم و تربیت کو بہتر بنانے اور ع۶ فرق باطلہ کے تعاقب اور اصلاح معاشرہ میں مدارس اسلامیہ کے کردار کو فعال بنانے پر اجتماعی غور و خوض شروع ہوا، اس سلسلہ میں متعدد حضرات نے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔

حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصور پوری نائب مہتمم دارالعلوم نے فرمایا کہ مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران اور اساتذہ میں بہت سے حضرات تصنیف و تالیف، دعوت و ارشاد، فرق باطلہ کے تعاقب وغیرہ کے سلسلہ میں تحقیقی کام کرنے کی اچھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح طلبہ میں بھی اچھا ذوق ہوتاہے۔ اس لیے اساتذئہ کرام اور طلبہٴ عزیز پر نظر رکھنی چاہئے۔ ان کے ذوق کے مطابق انھیں کام فراہم کرنا چاہئے، اور ان کی ہمت افزائی کی جانی چاہئے۔

حضرت مولانا سید ارشد مدنی زیدمجدہم ناظم مجلس تعلیمی دارالعلوم نے حضرات اکابر کے نصاب، طریقہٴ درس اور نظام تعلیم کی خصوصیات پیش کیں اور اسی انداز پر بنیادی ابتدائی تعلیم کو مضبوط کرنے، فارسی کو داخل نصاب کرنے اور امتحان وغیرہ کے نظام کو چست کرنے اور تربیت پر توجہ دینے پر زور دیا اور تدریس میں حل عبارت، استعداد سازی کی تاکید فرمائی۔

حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب مدظلہ استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند نے فرمایا کہ ہر مدرسے میں درجہ پنجم تک پرائمری تعلیم کا نظام ہونا چاہئے، جو حکومت سے منظور شدہ بھی ہو اور جس میں سرکاری نصاب کے مضامین کے ساتھ بنیادی دینی تعلیم کا بھی نظم ہو۔

حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی زیدمجدہم نے توجہ دلائی کہ غیرمقلدین کے رد اور تعاقب اور منظم کام کرنے کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل کی ضرورت ہے، جو لائحہ عمل تیارکرے اور رابطہ کے بجائے یہ کام خود دارالعلوم کرے۔

حضرت مولانا بدرالدین اجمل صاحب قاسمی رکن شوریٰ دارالعلوم نے فرمایا کہ ہمارے اکابر نے مدارس اسلامیہ کو جس نہج پر، جن مقاصد کے تحت قائم فرمایا تھا ہم کو جائزہ لینا چاہئے کہ کیا یہ مدارس اس نہج پر قائم ہیں اور ان سے مقاصد تاسیس حاصل ہورہے ہیں یا نہیں؟ ان مدارس پر بڑا سرمایہ خرچ ہورہا ہے، کیا ان مدارس سے ایسے باکمال افراد، مخلص رجال کار تیار ہورہے ہیں جن کی مدارس، اسلامی معاشرے اورملک و ملت کو ضرورت ہے؟ دارالعلوم دیوبند اور ہمارے اساتذئہ کرام کی بڑی ذمہ داری ہے ہم کواس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ان مدارس سے قوم و ملت کے مستقبل کے معمار پیدا ہوں۔ ان کی دینی و ملی ضروریات کی تکمیل کرنے والے افراد تیار ہوں۔ ہمارے فضلاء کی اہل سنت والجماعة، علمائے دیوبند کے مسلک پر تحقیقی نظر ہونی چاہئے، اور فرق باطلہ کی تردید اور ان کی بیخ کنی کا ہنر معلوم ہونا چاہئے۔ ہمیں مدارس کو فعال بنانا ہوگا۔

مولانا صدیق اللہ چودھری صدر رابطہ مغربی بنگال نے فرمایا کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ اور میڈیا والوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ مدارس میں کون کون سے ضروری اور مفید علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ انھوں نے آپسی اختلاف کے نتیجہ میں قائم کیے جانے والے مدرسوں پر اپنی تشویش ظاہر کی۔

انھوں نے کہا کہ پورے ملک کو چار زون میں تقسیم کرکے رابطہ کے کام کو فعال بنانا چاہئے۔

جناب مولانا ممتاز صاحب صدر رابطہ ہماچل پردیش نے اسکولوں اورکالجوں میں تعلیم پانے والے مسلم طلبہ کے لیے مدارس کے زیر انتظام دینی تعلیم کا نظم قائم کرنے پر زور دیا۔

جناب مفتی احمد دیولوی صاحب صدر رابطہ مدارس گجرات نے سرکاری امداد کے نقصانات پر روشنی ڈالی اور اس سے اجتناب کی تاکید کی۔ انھوں نے مدارس کے رابطہ کو وفاق المدارس کے انداز پر وسیع تر کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔

جناب مولانا رحمت اللہ صاحب میر قاسمی کشمیر، نے فرمایا کہ جن مربوط مدارس میں دارالعلوم دیوبند کا نصاب رائج نہیں ہے وہاں پہلی فرصت میں نصاب رائج کیا جائے اور رابطہ کے مقررہ اصول و ضوابط کی روشنی میں نظام تعلیم و تربیت کو بہتر بنایا جائے، اور ربط باہمی کو فروغ دیا جائے۔

جناب مولانا عبدالقادر صاحب جنرل سکریٹری تنظیم المدارس آسام نے ذمہ داران مدارس کو متوجہ کیاکہ اپنے اپنے علاقوں میں معاشرے کے حالات پر توجہ دی جائے اور منکرات و فواحش کا سدباب کیا جائے، اور رابطہ کی طرف سے اصلاح معاشرہ کے پروگرام بھی صوبائی سطح پر منعقد کیے جائیں۔

جناب مولانا قاری شوکت صاحب ویٹ نائب صدر جمعیة علمائے یوپی نے مدارس میں ضابطہٴ اخلاق کے نفاذ پر زور دیا۔ انھوں نے مدارس کے نظام کو زیادہ چست بنانے اور طلبہ کی تادیب و تربیت کی طرف متوجہ فرمایا۔

جناب مولانا عبدالرزاق صاحب صدر رابطہ مدھیہ پردیش نے فرمایا کہ فتنوں اور باطل فرقوں کے مقابلہ میں نرمی اور جواب دہی کے بجائے اقدامی کارروائی کی ضرورت ہے۔ انھوں نے تزکیہٴ نفس، اصلاح و تربیت اور کسی شیخ سے طلبہ کو اصلاحی تعلق قائم کرنے کا مشورہ بھی دیا۔

جناب مولانا حیات اللہ صاحب قاسمی مہتمم مدرسہ نورالعلوم بہرائچ و صدر جمعیة علماء یوپی نے صوبائی شاخوں کو منظم و فعال بنانے پر زور دیا اور سال میں ایک مرتبہ دارالعلوم میں تمام صوبائی ذمہ داران کی میٹنگ کی تجویز پیش کی۔

جناب مولانا مفتی ظفرالدین صاحب صدر رابطہ صوبہ دہلی نے علمائے مدارس کے ذریعہ امربالمعروف نہی عن المنکر اور معاشرے کی اصلاح کا کام منظم طور پر کرنے کی تاکید کی۔ انھوں نے فرمایا کہ عوام سے ربط مضبوط کرنا چاہئے اور ان کی دینی ضروریات کی تکمیل کرنی چاہئے۔

جناب مولانا معصوم ثاقب قاسمی آندھرا، نے غیرمقلدین کے منظم تعاقب کی بات کی اور ابتدائی پرائمری کی تعلیم میں حساب، جغرافیہ، علاقائی زبانیں، دینیات کے ساتھ پڑھانے پر زور دیا۔

غور و خوض کے بعد مذکورہ تینوں دفعات کے بارے میں تجاویز منظور ہوئیں جو آخر میں درج ہیں:

مذکورہ حضرات کے علاوہ، حضرت مولانا غلام رسول صاحب خاموش کارگذار مہتمم دارالعلوم، حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی نائب مہتمم دارالعلوم، حضرت مولانا ناظرحسین صاحب رکن شوریٰ دارالعلوم، حضرت مولانا سعید احمد صاحب پالن پوری استاذ حدیث دارالعلوم، حضرت مولانا عبدالحق صاحب اعظمی استاذ حدیث دارالعلوم، حضرت مولانا قمرالدین صاحب استاذ حدیث دارالعلوم، حضرت مولانا نورعالم صاحب استاذ ادب عربی دارالعلوم و رئیس تحریر ماہنامہ الداعی، حضرت مولانا محمد احمد صاحب استاذ دارالعلوم، حضرت مولانا محمد باقر حسین صاحب صدر دارالعلوم اسلامیہ بستی، حضرت مولانا عبدالہادی صاحب پرتاب گڈھ، حضرت مولانا سراج الساجدین صاحب کٹک، حضرت مولانا حکیم محمد عرفان حسینی صاحب کلکتہ، حضرت مولانا مفتی عبدالرحمن صاحب دہلی، حضرت مولانا قاری محمد امین صاحب صدر رابطہ راجستھان، حضرت مولانا محمد الیاس صاحب صدر رابطہ ہریانہ وپنجاب، حضرت مولانا قربان صاحب کرناٹک، مولانا شکیل صاحب نمائندہ حضرت مولانا اسدالدین صاحب راجستھان شریک اجلاس رہے۔

اجلاس میں دفعہ ع۷ ”باجازت صدر محترم“ کے تحت حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ کو مغربی یوپی کے ساتھ اترانچل کے مدارس کا بھی ذمہ دار مقرر کیاگیا، حضرت مولانا ازہر صاحب زیدمجدہم رانچی کو جھارکھنڈکیلئے صدر اور ذمہ دار منتخب کیاگیا، جناب مولانا اشہد رشیدی صاحب مہتمم جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد کو مجلس عاملہ رابطہ کارکن طے کیاگیا، جناب مولانا محمد قاسم صاحب شیخ الحدیث شمس الہدیٰ پٹنہ کو بہار رابطہ کا صدر،مولانا عبدالعزیز صاحب نیپالی کو نیپال کے رابطہ کا صدر اور جناب رحمت اللہ صاحب میر قاسمی مہتمم دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ کشمیر رکن عاملہ رابطہ کو جموں کشمیر رابطہ کا صدر مقرر کیاگیا۔

$ $ $

تجاویز

منظور کردہ: اجلاس پنجم مجلس عاملہ

رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند

زیر صدارت: حضرت اقدس مولانا مرغوب الرحمن صاحب دامت برکاتہم

مہتمم دارالعلوم دیوبند وصدررابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند

منعقدہ : دفتر تنظیم و ترقی دارالعلوم دیوبند

مورخہ: ۱۸/ جمادی الثانیہ ۱۴۲۶ھ مطابق ۲۵/ جولائی ۲۰۰۵ءبروز دوشنبہ

تجویز ﴿۱﴾

نصاب تعلیم میں کوئی بنیادی تبدیلی مدارس اسلامیہ کے نصب العین کے خلاف ہے:

کل ہند رابطہٴ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس اس بات کا اظہار ضروری سمجھتا ہے کہ حضرات اکابر رحمہم اللہ نے مدارس اسلامیہ کیلئے جو نصاب تعلیم مقرر کیا تھا اس کا بنیادی مقصد ایسے مخلص علماء، صالحین اور رجال کار کی تیاری ہے جو دین اسلام کی حقیقی روح سے واقف ہوں۔ اسلامی علوم و فنون میں کامل دست گاہ رکھتے ہوں، اور دین کی ترویج واشاعت اور اسلام کے دفاع اور تحفظ کا فریضہ انجام دے سکتے ہوں اور فرق باطلہ اور اسلام دشمن طاقتوں کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا موٴثر جواب دے سکیں، حالات کے تقاضوں اور ضرورتوں کے پیش نظر ان میں جزوی ترمیمات کی جاتی رہی ہیں اور فی الوقت رائج نصاب، مذکورہ بلند مقاصد کے حصول کیلئے اب بھی کافی اور امید افزا ہے۔ ضرورت پورے اخلاص و احتساب اور دیانت داری کے ساتھ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کے تقاضوں کے تکمیل کی ہے۔ اس سلسلے میں رابطہ کے منظور کردہ نصاب تعلیم اور نظام تربیت کومشعل راہ بنایا جائے تو نتائج یقینی طور پر بہتر ہوں گے۔

یہ کل ہند اجلاس ذمہ دارانِ مدارس کو تاکید کرتا ہے کہ نصاب میں بنیادی تبدیلی اور عصری علوم کی شمولیت کے بارے میں نام نہاد دانشوروں اور عاقبت نا اندیشوں کے مطالبے سے متاثر نہ ہوں؛ بلکہ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کو قدیم اور متوارث خطوط پر ہی قائم و استوار رکھیں، البتہ درجہٴ پنجم پرائمری تک ایسا نصاب تعلیم اپنے قائم کردہ مدارس میں رائج کریں جو دینیات کے ساتھ ضروری عصری علوم، حساب، جغرافیہ، علاقائی زبان اور تاریخ پر مشتمل ہو اور بہتر ہوگا کہ ان مکاتب و مدارس کی حکومت سے منظوری حاصل کرلیں۔ یہ اجلاس نصاب میں بنیادی تبدیلی کے خیال کویکسر مسترد کرتا ہے اوراسے نصاب کی روح کے منافی اور نصب العین کے خلاف سمجھتا ہے۔

تجویز ﴿۲﴾

مدارس اسلامیہ کے خلاف منصوبہ بند پروپیگنڈے کی مذمت

صہیونیت کے زیر اثر حلقوں، ہندو احیاء پرستی و انتہاپسندی کے علم برداروں اور ملک کے سیکولر کردار کو مجروح کرنے کی مذموم کوشش کرنے والی طاقتوں کی طرف سے مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام کو بدنام کرنے اور ان کی کردارکشی کرنے کی منصوبہ بند مہم ایک بار پھر تیزکردی گئی ہے۔ یہ مدارس انھیں کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں۔ یہ فرقہ پرست عناصر مدارس پر دہشت گردی، بنیادپرستی اور انتہائی پسندی وغیرہ کے بے بنیاد الزامات لگاکر مدارس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ سازش، مدارس اسلامیہ، علماء کرام اور مسلمانوں کے ہی خلاف نہیں ہے بلکہ یہ دستور ہند کے بھی منافی ہے اور ملک کی یکجہتی اور سالمیت کو اس سے شدید خطرہ لاحق ہوگیا، ذرائع ابلاغ اور میڈیا کے افراد کا کردار بھی منفی، افسوس ناک اور قابل مذمت رہا ہے۔ وہ مدارس کو بدنام کرنے والی ہر بات بغیر تحقیق و تفتیش کے خبربناکر پیش کردیتے ہیں۔

مجلس عاملہ کا یہ کل ہند اجلاس اس منصوبہ بند سازش کی پرزور مذمت کرتا ہے اورحکومت ہند سے مطالبہ کرتا ہے کہ مدارس اسلامیہ جو ملک کے باشندوں کو علم و اخلاق کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں ملک کو با اخلاق، امن پسند، فرض شناس اور انسانیت نواز شہری فراہم کرتے ہیں۔ ان کی کردارکشی کی اور ان کی شبیہ کو مسخ کرنے کی ہرکوشش پر بند لگانے کے لیے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے اور اس طرح کی حرکت کرنے والے فرقہ پرست عناصر کے خلاف ضروری تادیبی کارروائی کرے۔ اور ذمہ داران مدارس کو تاکید کرتا ہے کہ وہ ان پروپیگنڈوں سے متاثر ہوئے بغیر پوری احتیاط اور حزم و تدبر سے کام لیں اور اپنے نظام میں مزید فعالیت لائیں۔

تجویز ﴿۳﴾

کل ہند رابطہٴ مدارس اسلامیہ کی صوبائی شاخوں کو فعال بنانے سے متعلق

رابطہ مدارس کی مجلس عاملہ کا یہ کل ہنداجلاس ربط باہمی کے فروغ اور رابطہ کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے صوبائی شاخوں کے قیام اور ان کی اب تک ہوئی پیش رفت کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس بابت مزید ترقی و استحکام اور شاخوں کی سرگرمیوں کو تیز تر کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات کی سفارش کرتا ہے:

(۱)  جن صوبوں میں اب تک صوبائی رابطہ کے عہدے داران کا انتخاب اور صوبائی رابطہ کی باضابطہ تشکیل نہیں ہوسکی، وہاں بعجلت ممکنہ صوبائی شاخ قائم کی جائے اور عہدے داران کا انتخاب عمل میں لاکر رابطہ کو فعال بنایا جائے اور اس کی رپورٹ مرکزی دفتر رابطہ کو ضرور ارسال کی جائے۔

(۲) صوبائی رابطہ کی زیرنگرانی ضلعی شاخیں قائم کی جائیں اور ضلعی پیمانے پر ان کے اغراض و مقاصد کو بروئے کار لایا جائے۔

(۳) مجلس عاملہ رابطہ اور مجلس عمومی رابطہ کے اجلاسوں کی تجاویز کو سختی کے ساتھ ہر سطح پر نافد کیا جائے۔

(۴) صوبائی رابطہ کے تحت مربوط مدارس کے تعلیمی و تربیتی معاینے کانظام قائم کیا جائے اور سالانہ معاینہ کی مکمل رپورٹ کی ایک کاپی مرکزی دفتر رابطہ کو بھی ارسال کی جائے۔

(۵) مدارس کو درپیش داخلی و خارجی مشکلات کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کی جائیں اور ان کو دور کرنے کی کوشش کی جائے اوراس کی اطلاع مرکزی دفتر کو بھی کی جائے۔

(۶) طریقہٴ تدریس کی اصلاح اور اسے مفید سے مفید تر بنانے کے لیے صوبائی سطح پر عربی چہارم تک کے اساتذہ کی تربیت و تدریب کا نظام قائم کیا جائے۔

(۷)            مربوط مدارس سے مسلسل رابطہ رکھا جائے اور ان کے حالات پر نظر رکھی جائے۔

(۸) مدارس کے خلاف سازشوں کے تعاقب کے لیے منظم و اجتماعی جدوجہد جاری رکھی جائے۔

تجویز ﴿۴﴾

فرق باطلہ کی تردید اورمعاشرے کی اصلاح میں مدارس اسلامیہ کا کردار

یہ ایک روشن اور تابناک حقیقت ہے کہ حضرات اکابر و فرزندان دیوبند اپنے مسلک و مشرب کے تئیں اہل سنت والجماعة کے مسلک کے مکمل پابند رہے ہیں اور اعتدال و وسطیت سے متصف مسلک اہل حق کی اشاعت و ترویج اور جادئہ اعتدال سے منحرف، تحریف الغالین، انتحالِ مبطلین اور تاویل الجاہلین پر مبنی فرق باطلہ کے زیغ وضلال کو آشکارا کرنے اور امت کو ان کے دام فریب سے بچانے کے لیے بڑی قابل قدر خدمات انجام دی ہیں، مگر پچھلے چند سالوں سے باطل طاقتوں نے اپنی مہم تیز تر کردی ہے۔ ایک طرف عیسائی مشنریاں ایک مرتبہ پھر ملک بھر میں سرگرم ہوگئی ہیں، دوسری طرف قادیانیت خوفناک طریقوں سے اپنا جال پھیلارہی ہے۔ اسی کے ساتھ غیرمقلدین نے احناف اور بالخصوص علماء دیوبند رحمہم اللہ کے خلاف جارحیت اختیار کرلی ہے۔

ماضی میں ان باطل طاقتوں اور فرق ضالہ کا مقابلہ، مدارس اسلامیہ کے علمائے کرام اور مشائخ عظام نے اپنی ایمانی بصیرت، خداداد عبقریت اور اپنی انقلاب انگیز مساعی جمیلہ سے کیا ہے۔ مجلس عاملہ کا اجلاس ذمہ داران مدارس کو تاکید کرتا ہے کہ وہ اس بارے میں مندرجہ ذیل امور کو روبہ عمل لانے کی بھرپور جدوجہد کریں:

(۱)  مربوط مدارس باطل طاقتوں اور فرق ضالّہ کی تردید کے لیے کام کرنے والے افراد تیار کریں، اس سلسلہ میں دارالعلوم کے سلسلہٴ محاضرات سے بھی استفادہ کریں۔

(۲) عوام سے مدارس کا ربط کمزور ہورہا ہے اس کو بڑھایا جائے، مختلف مواقع پر مسلک کی اہمیت، دیوبندیت اور حنفیت کی حقیقت بیان کی جائے اور فرق باطلہ کے غلط پروپیگنڈے کا جواب دیا جائے۔

(۳) حضرات اساتذہ، دوران درس، مناسب مواقع پر، طلبہ کے سامنے قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلک اہل حق، علماء دیوبند کے نقاط و افکار کی تشریح فرماکر انکی ذہن سازی فرمائیں۔

(۴) علاقے کی مساجد میں ترجمہٴ قرآن کا اہتمام کیا جائے اور معاشرے کی اصلاح اور مسلک کی تفہیم و تشریح سے متعلق موقع بموقع گفتگو کی جائے۔

تجویز ﴿۵﴾    تجویز تعزیت

کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس محی السنہ حضرت مولانا ابرارالحق صاحب حقی رحمة اللہ علیہ کے سانحہٴ ارتحال پر اپنے جذبات غم کا اظہار کرتا ہے۔ حضرت مولانا مرحوم، حضرت تھانوی قدّس سرہ سے براہ راست تربیت حاصل کرنے والے اور فیض یافتہ سلسلہٴ علماء و مشائخ کی آخری کڑی تھے اور احیاء سنت اور منکرات پر نکیر مولانا کا خاص مشن تھا۔ حضرت کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا اس کا پر ہونا بہت مشکل ہے۔ ضرورت ہے کہ اکابر کے جن جذبات کے حضرت مولانا مرحوم حامل و داعی تھے، ہم ان کے باقی ماندہ کام کی تکمیل کریں۔ نیز مناظر اسلام حضرت مولانا اسماعیل صاحب کٹکی رکن شوری دارالعلوم کی وفات پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ علوم اسلامیہ کی اشاعت، فرق باطلہ کی بیخ کنی، اسلام اور مسلک حق کے تحفظ و دفاع اور ملت اسلامیہ اور مدارس دینیہ کے حوالے سے ان کی قابل قدر خدمات کو قبول فرمائے۔ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبرجمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ علاوہ ازیں جناب مولانا قاری شریف احمد صاحب مہتمم دارالعلوم رشیدی گنگوہ، جناب مولانا زکات صاحب قلزم مہتمم مدرسہ حیات العلوم مرادآباد، جناب مولانا عبدالرحیم صاحب تھے پوری خلیفہ حضرت شیخ سہارنپوری، جناب مولانا الحاج محمد اسمٰعیل صاحب وستانوی والد محترم جناب مولانا غلام محمد صاحب وستانوی مدظلہ رکن شوریٰ دارالعلوم و مہتمم جامعہ اشاعت العلوم، اکل کوا مہاراشٹر، جناب مولانا حفظ الرحمن صاحب نائب مہتمم مدرسہ شاہی مرادآباد، جناب ابراہیم سلیمان سیٹھ سابق ایم پی، حافظ محبوب صاحب ہریانہ، حافظ انورالحق صاحب والد محترم حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب قاسمی استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند، جناب ضیاء اللہ صاحب والد محترم حضرت مولانا شوکت علی صاحب قاسمی بستوی استاذ دارالعلوم دیوبند، جناب حاجی اخلاق صاحب قریشی سابق ایم ایل اے ۔ میرٹھ، والدئہ مرحومہ جناب مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری استاذ دارالعلوم دیوبند، خوش دامن صاحبہ مولانا ریاض صاحب ہاپوڑ اور دیگر بہت سے علماء داعیان کرام جو رابطہ کی پچھلی نشست کے بعد انتقال فرماچکے ہیں، آج کا اجلاس ان سب کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہوئے مولائے کریم سے دست بدعا ہے کہ وہ ان سب کے ساتھ فضل وکرم کا معاملہ فرمائے اور جملہ پس ماندگان کو صبر جمیل مرحمت فرمائے۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ9، جلد: 89 ‏،    رجب‏، شعبان  1426ہجری مطابق ستمبر 2005ء