مسئلہ طلاق

جہالت اور میڈیا کی جانب داری کے تناظر میں

از: غلام رسول دیش مکھ، انجمن روڈ۔ بھساول

 

آئے دن مسئلہ طلاق موضوعِ بحث بنتا جارہا ہے۔ میڈیا واقعات کو غلط رنگ دے کر شریعت اسلامیہ ہی کو نشانہ بناتا ہے۔ اس مسئلہ میں تعصب اور اسلام دشمنی کے ساتھ ناواقفیت اور جہالت کو بھی دخل ہے۔ اور جہاں تک مسلمانوں کامعاملہ ہے وہ بھی اس مسئلہ میں لاعلمی اور جہالت کاشکار ہیں۔ اکثر لوگ طلاق کا غلط استعمال کرکے متعصب لوگوں اورمیڈیا کو مواقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔ درج ذیل مضمون میں آسان انداز میں شریعت میں طلاق کے متعلق احکام اور صلح صفائی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

ازدواجی زندگی میں اکثر شکوے شکایات، غلط فہمیاں، بدگمانی اور شک وشبہ کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کے کئی اسباب ہوتے ہیں۔ مشترک خاندان، گھریلو ماحول، جذباتیت، مزاج میں تفاوت، ضد، جہالت، غربت اور منشیات کا استعمال وغیرہ۔ اس کے علاوہ دین داری یا شعوری دین داری کا نہ ہونا، خوف خدا اور آخرت کی جواب دہی کا عدم احساس، دین سے غفلت و بے نیازی اکثر گھریلو ماحول کو خراب کرتی ہے۔

مندرجہ بالا باتیں ازدواجی زندگی میں ممکنات میں سے ہیں۔ ان باتوں کی اصلاح اور تدارک کے لئے شریعت اسلامیہ نے واضح احکامات اور ہدایات دی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

”وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس۔“ (سورہ بقرہ: ۱۸۷)

”اور اس نے تمہارے درمیان محبت اوررحمت پیدا کی ہے۔“ (سورہ الروم: ۲۱)

”ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔“ (سورہ نساء:۱۹)

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:

”کوئی مومن کسی مومنہ سے نفرت نہ کرے۔ اگر اس کی ایک عادت پسند نہ ہوگی تو دوسری صفت یقینا پسندیدہ ہوگی۔“ (مسلم)

یہ بات بھی یاد رہے کہ عورتیں عام طور پر جذباتی ہوتی ہیں۔ اس لئے جلدغلط فہمیوں کا شکار ہوجاتی ہیں، اور کچھ مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان حالات میں مرد کو حکمت سے کام لینا چاہئے تاکہ معاملہ الجھنے نہ پائے۔ حدیث نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے:

”عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو کیوں کہ عورتوں کو پسلی سے پیدا کیاگیا ہے۔ اور پسلی کا سب سے ٹیڑا حصہ اوپر والا ہوتا ہے۔ اگر تم انہیں سیدھا کرنے جاؤگے تو توڑ کر رکھ دوگے۔ اوراگر اسے اپنے حال پر چھوڑ دوگے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ لہٰذا عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک کرو۔“ (بخاری)

اگر مرد اور عورت میں شکوے شکایات بڑھ کر نفرت پیدا ہوگئی ہو اور نباہ مشکل نظر آرہا ہو تو ایسے حالات میں اسلام نے اصلاح اور میل ملاپ کی خاطر ان تدابیر اور حکمت عملی کو اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے۔ وہ اس طرح ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

”جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو ان کو سمجھاؤ۔ (اگر نہ سمجھیں تو خواب گاہ میں ان کو تنہا چھوڑ سکتے ہو، اور (ضرورت محسوس ہوئی تو تادیب کیلئے) ان کو ماربھی سکتے ہو۔ پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرنے لگیں تو ان کے خلاف کوئی بہانہ نہ تلاش کرو۔ یقین جانو اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔“ (سورہ نساء: ۳۴)

اس آیت میں شوہر کو عورتوں کی نافرمانی کی اصلاح کے لئے تین تدابیر بتائی گئی ہیں۔ ایک فہمائش، اور اگر اس سے بھی اصلاح نہ ہو تو ان کو بستروں پر علیحدہ چھوڑ دیا جائے۔ تاکہ شوہر کی ناراضگی کا پتہ چل جائے۔ اگر اس کے بعد بھی معاملہ سلجھ نہ رہا ہو تو سزا کے طور پر مارا بھی جاسکتا ہے۔

حدیث میں آیا ہے کہ ”منھ پر مت مارو۔ گالی گلوج نہ کرو۔“(ابوداؤد)

ان تدابیر کے بعد بھی رنجش باقی رہے اور اصلاح کی کوئی امید نہ ہو تو قرآن میں ایک اور تدبیر کی تعلیم دی گئی ہے۔ وہ یہ کہ حَکَم یعنی پنچ کے ذریعے میل ملاپ کی کوشش۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایاگیا ہے:

”اگر تم لوگوں کو میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑجانے کا اندیشہ ہوتو ایک حَکَم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو۔ وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دیگا۔ اللہ سب کچھ جانتا اور باخبر ہے۔“ (سورہ نساء: ۳۵)

یعنی شوہر اور بیوی دونوں خاندانوں کی طرف سے ایک ایک پنچ (حَکَم) صلح اور صفائی کیلئے متعین کیا جائے تو ممکن ہے اللہ تعالیٰ موافقت کی کوئی صورت پیدا کردے۔ کورٹ اور عدالت کے مقابلے میں یہ طریقہ دونوں کے حق میں بہتر ہے۔ اوراس سے شوہر اور بیوی کی کمزوریوں پر بھی پردہ پڑجاتا ہے۔

پہلی طلاق

تمام کوششیں بھی ناکام ہوں اور نباہ کی کوئی صورت نہ نکل سکے تو مجبوراً آخری عمل طلاق ہوگا۔ حالانکہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔“ (ابوداؤد)

طلاق کا فیصلہ کرنے کی صورت میں شرعی طریقہ ہی اختیار کرنا چاہئے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

”جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لئے طلاق دیا کرو۔“ (الطلاق:۱)

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ طلاق عورت کو طہر کی حالت میں دی جائے یعنی ایامِ حیض ختم ہونے پر جب عورت پاک ہوجاتی ہے اس وقت اس سے صحبت کئے بغیر دی جائے۔اور اس کی عدت تین ایامِ حیض آنے تک ہے۔

ایامِ حیض میں طلاق دینے کی حدیث میں ممانعت آتی ہے۔ اور طلاق کی عدت جو تین حیض ہیں اس کا حساب رکھنا بھی ضروری ہے۔

ایک وقت میں صرف ایک طلاق دی جائے۔ یعنی شوہر بیوی سے کہے کہ میں نے تجھے ایک طلاق (رجعی) دی۔

طلاق دو صاحب عدل اور نیک گواہوں کے سامنے دی جائے۔ جیساکہ سورہ طلاق میں ارشاد ہوا ہے:

”اپنے میں سے دو عادل آدمیوں کو گواہ بنالو“ (الطلاق:۲)

طلاق تحریری دی جائے اوراس میں ایک طلاق (رجعی) دی اس طرح لکھا جائے جس پر دو گواہوں کے دستخط لازمی ہیں۔

اس ایک طلاق کے بعد عورت کو اپنے شوہر کے گھر میں عدت گذارنا ضروری ہے۔ شوہر کے لئے لازم ہے کہ وہ عدت ختم ہونے سے پہلے اُسے گھر سے نہ نکالے اوراس کی تمام ضروریات پوری کرے۔ عورت کو طلاق کے بعد تین حیض آنے تک عدت گذارنی ہوگی۔ اس دوران ان دونوں کی کوشش ہونی چاہئے کہ میل ملاپ اور صلح صفائی کی کوئی راہ نکل سکے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

”اور جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو وہ تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھیں“(بقرہ:۲۸۸)

جب تیسرا حیض ختم ہوجائے تو عدت خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔ بے حیض عورتوں کی مدت عدت تین ماہ ہیں۔ اگر عورت حاملہ ہے تو اس کی عدت وضع حمل تک ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:

”اور حاملہ عورتوں کی عدت کی حد یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہوجائے۔“ (الطلاق:۴)

ایک طلاق دینے کے بعد عدت کے دوران (طلاق دینے کے بعد تین حیض آنے تک) مرد اپنی بیوی سے رجوع کرسکتا ہے۔ رجوع کرتے وقت دو آدمیوں کو گواہ بنالیا جائے۔

اگر عدت کے دوران رجوع نہیں کیاگیا اور عدت ختم ہوگئی ہو تو شوہر اور بیوی ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے۔ اب وہ آزاد ہیں جہاں نکاح کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔ لیکن عدت گزرنے کے بعد ان دونوں میں میل ملاپ ہوجائے اور وہ باہمی رضامندی سے ایک ساتھ رہنا چاہتے ہوں تو نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔ اس صورت میں عورت پر ایک طلاق باقی رہے گی۔

شریعت کے مطابق صحیح طریقہ یہی ہے۔ عدت کے دوران مرد کو غور و فکر اور حالات کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے تو بیوی کو بھی اپنی غلطی اور کمزوریوں کی اصلاح کے مواقع میسر آجاتے ہیں اور پچھتانے کی نوبت نہیں آنے پاتی۔

دوسری طلاق

پہلی طلاق کے بعد مرد نے بیوی سے رجوع کرلیا یا عدت کے بعد نکاح کرکے دونوں ازدواجی زندگی گزارنے لگے۔ بعد میں پھر کوئی مسئلہ پیدا ہوگیا اور مندرجہ بالا تمام کوششوں کے باوجود ملاپ کی کوئی شکل نہ نکل سکی اور طلاق دینا ہی مجبوری ہو تو پھر وہ اسی طریقہ پر جس کا ذکر اوپر ہوا ہے دوسری طلاق دے سکتا ہے۔ اس طلاق کے بعد بھی بیوی کو اس گھر میں عدت گذارنی ہوگی اور شوہر کو بھی بیوی کو گھر میں رکھ کر اس کی ساری ضرورتیں پوری کرنی ہوگی۔ عدت کے دوران شوہر کو رجوع کاحق حاصل ہے اور اگر بغیر رجوع کیے عدت گذرگئی تو وہ دونوں جدا ہوجائیں گے لیکن بعد میں دونوں رضامند ہوئے تو دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔ کیونکہ عورت کو دو ہی طلاق دی گئیں۔

پہلی اور دوسری طلاق میں عدت کے دوران رجوع اور عدت کے بعد نکاح کرنے کے مواقع ہوتے ہیں۔

تیسری طلاق

قرآن میں ارشاد ہے:

”طلاق دوبار ہے۔ پھر یا تو بھلے طریقہ سے عورت کو روک لیا جائے یا خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردیا جائے۔“ (بقرہ:۲۲۹)

اب اگر شوہر تیسری طلاق دیتاہے تو اس میں نہ عدت کی گنجائش ہے اور نہ ہی رجوع کا موقع۔ واضح رہے کہ تیسری طلاق بھی تحریری طورپر دو گواہوں کی موجودگی میں دی جائے اور تحریر پر ان کے دستخط لیے جائیں۔ اب وہ دونوں ہمیشہ کیلئے جدا ہوجائیں گے۔ جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے:

”پھر اگر (دوبار طلاق دینے کے بعد شوہر نے بیوی کو تیسری بار) طلاق دیدی وہ عورت اس کیلئے حلال نہ ہوگی۔ الاّ یہ کہ اسکا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دیدے۔“ (بقرہ:۲۳۰)

یعنی یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے حرام ہوگئے۔ الاّیہ کہ اس عورت کا نکاح کسی اور مرد سے ہوجائے اور وہاں اتفاق سے (نہ کہ طے شدہ سازش کے تحت) طلاق ہوجائے یا اُس شوہر کا انتقال ہوجائے۔ ایسی صورت میں اگریہ دونوں پھر باہمی رضامندی سے نکاح کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔

عام طور پر لوگ جہالت اور نادانی سے بغیر سوچے سمجھے طیش میں آکر تین طلاق دے دیتے ہیں۔ وکیل بھی اگر طلاق کی تحریر لکھتا ہے تو تین بار طلاق لکھ دیتا ہے۔ قاضی اور مولوی حضرات بھی اپنے معمول کے مطابق یہ ضروری خیال کرتے ہیں کہ طلاق کے لفظ کو تین بار لکھنا ضروری ہے۔ عام طور پر یہ مزاج بنا ہوا ہے کہ طلاق کے لفظ کو تین بار استعمال کرنا ضروری ہے۔ حالانکہ مہر کبھی ادا کیا ہوا نہیں ہوتا اور نہ اس کااحساس ہوتا ہے۔

اس کے بعد جب پچھتاتے ہیں تو حیلہ بہانے تلاش کرتے ہیں،مولویوں کے چکر لگاتے ہیں اور پھر (سازش کے تحت نکاح کرکے فوراً طلاق دلوالینا) کاارتکاب کرتے ہیں۔ اور شریعت شکنی کے مرتکب اور گناہ گار ہوتے ہیں۔ حلالہ کے تعلق سے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

”اللہ نے تحلیل (حلالہ) کرنے والے تحلیل کرانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔“ (ترمذی، نسائی)

ایک حدیث میں ہے: نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا، کیا میں تمہیں بتاؤں کہ کرایہ کا سانڈ کون ہوتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: ضرور ارشاد فرمائیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تحلیل (حلالہ) کرنے والا ہے۔ خداکی لعنت ہے تحلیل کرنے والے پر بھی اوراس شخص پر بھی جس کے لئے تحلیل کی جائے۔“ (ابن ماجہ، دارقطنی)

اس حدیث سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ ”حلالہ“ کا رواج شریعت اسلامیہ کے خلاف، غیراخلاقی اور کتنا بیہودہ ہے۔ افسوس ہے ان مسلمانوں پر جو اس طرح کے غلط مشورے دیتے ہیں۔ یا یہ کام کرتے ہیں۔

تیسری طلاق کے بعد جب بیوی کو رخصت کرو تو اسکو دی ہوئی چیزیں واپس لینا جائز نہیں ہے۔

اللہ کا ارشاد ہے:

”اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لے لو۔“ (بقرہ: ۲۲۹)

یعنی مہر زیور اور کپڑے وغیرہ جو شوہر اپنی بیوی کو دے چکا ہو ان میں سے کوئی چیز بھی واپس مانگنے کا اُسے حق نہیں ہے۔ یہ بات ویسے بھی اسلام کے اخلاقی اصولوں کی ضد ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی چیز کو جسے وہ دوسرے شخص کو ہدیہ اور تحفہ کے طور پر دے چکا ہو واپس مانگے۔ اس ذلیل حرکت کو حدیث میں اس کتے کے فعل سے تشبیہ دی گئی ہے جو اپنی قے کو خود چاٹ لے۔ مگر خصوصیت کے ساتھ ایک شوہر کیلئے تو یہ بہت ہی شرمناک ہے کہ وہ طلاق دے کر رخصت کرتے وقت اپنی بیوی سے وہ سب رکھوالے جو اس نے اسے خود دیا تھا۔ اس کے برعکس اسلام نے یہ اخلاقی تعلیم دی ہے کہ آدمی جس عورت کو طلاق دے اسے رخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

”جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو انہیں مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقیوں پر۔“ (بقرہ:۲۴۱)

یعنی حسن و خوبی کے ساتھ رخصتی ہدیہ دے کر روانہ کریں۔

عہد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم سے ماضی قریب تک کے زمانے میں ایک سے زائد شادیاں کی جاتی تھیں اس لئے مطلقہ اور بیوہ کاکوئی مسئلہ نہیں تھا۔ فوراً ان کے نکاح ہوجاتے تھے۔ فی زمانہ اور خاص طورپر بھارت میں یہ ماحول نہیں ہے۔ اس لئے بیوہ اورمطلقہ کا مسئلہ پیچیدہ بنا ہوا ہے۔

طلاق کے معاملے میں شریعت اسلامیہ نے جو شرائط اور رکاوٹیں رکھی ہیں ان کی اصلاح اور صلح صفائی کیلئے عائد کی گئیں کوششوں پر عمل کیاگیا تو طلاق کی نوبت شاز ونادر ہی آسکتی ہے۔

ضرورت ہے کہ ان باتوں کو درس تدریس، خطبات، وعظ وتقاریر کے ذرائع سے عوام تک پہنچایا جائے تاکہ عوام مکمل طور پر ان سے واقف ہوجائیں۔ اور شریعت اسلامیہ کی خلاف ورزی سے بچ سکیں۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10، جلد: 90 ‏،رمضان المبارک1427 ہجری مطابق اکتوبر2006ء