قرآن کی حفاظت کے لیےاللہ کا حیرت انگیز انتظام

از:(مولانا) حذیفہ وستانوی‏، استاذ:جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم‏، اکل کوا

 

اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ”إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ إِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ“( سورة الحجر: پ۱۴/۹) ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ یہ پہلی وہ آسمانی کتاب ہے، جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا، گویا اس کی حفاظت کے لیے یہ وعدہ الٰہی ہے اور قرآن کا اعلان ہے: ”إِنَّّّ اللَّہَ لَاْ یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ“(سورة آل عمران:پ۳/۹) اللہ کبھی بھی وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ بس اللہ نے اپنا یہ وعدہ سچ کر دکھایا۔ اور کتاب اللہ کی حفاظت کا حیرت انگیز انتظام کیا۔ اس طور پر کہ اس کے الفاظ بھی محفوظ، اس کے معانی بھی محفوظ، اس کا رسم الخط بھی محفوظ، اس کی عملی صورت بھی محفوظ، اس کی زبان بھی محفوظ، اس کا ماحول بھی محفوظ، جس عظیم ہستی پر اس کا نزول ہوا اس کی سیرت بھی محفوظ، اور اس کے اولین مخاطبین کی سیَرْ بھی یعنی زندگیاں بھی محفوظ۔

غرضیکہ اللہ رب ا لعزت نے اس کی حفاظت کے لیے جتنے اسباب و وسائل اور طریقے ہوسکتے تھے، سب اختیار کئے، اور یوں یہ مقدس اور پاکیزہ کتاب ہر لحاظ اور ہر جانب سے مکمل محفوظ ہوگئی۔ الحمدللہ آج چودہ سو انتیس سال گذرنے کے بعد بھی اس میں رتی برابر بھی تغیر و تبدل نہ ہوسکا، لاکھ کوششیں کی گئیں، مگر کوئی ایک کوشش بھی کامیاب اور کارگر ثابت نہ ہوسکی، اور نہ قیامت تک ہوسکتی ہے۔

کتاب الٰہی کی، کیسے حفاظت کی گئی؟

ڈاکٹر محمود احمد غازی اپنی کتاب محاضرات حدیث میں تحریر فرماتے ہیں ”کتاب الٰہی کے تحفظ کے لیے اللہ رب العزت نے دس چیزوں کو تحفظ دیا، یہ دس چیزیں وہ ہیں، جو قرآن پاک کے تحفظ کی خاطر محفوظ کی گئی ہیں“ ۔

وہ کون سی چیزیں ہیں، جو قرآن کے خاطر محفوظ کی گئیں؟

قرآن کی حفاظت کی خاطر نو چیزیں محفوظ کی گئیں:

(۱) قرآن کی کا متن یعنی اس کے بعینہ وہ الفاظ جو اللہ رب العزت نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطہ سے یا وحی کے کسی اور طریق سے نبی آخرالزماں صلى الله عليه وسلم پر نازل کئے، آپ صلى الله عليه وسلم پر جب وحی نازل ہوتی، تو آپ فوراً کاتبین وحی میں سے کسی سے کتابت کروالے لیتے، پھر صحابہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی زبانِ اقدس سے بھی اُسے سنتے، اور جو تحریر کیا ہوا ہوتا، اُسے بھی محفوظ کرلیتے، اس طرح ۲۳/سال تک قرآن، نزول کے وقت ہی لکھا جاتا رہا، صحابہ نے اسے حفظ بھی یاد کیا، کیوں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اس کے حفظ کی بڑی فضیلتیں بیان کی ۔ ایک روایت کے مطابق صحابہ میں سب سے پہلے حفظِ قرآن مکمل کرنے والے حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ ہیں۔

دورِ نبوی صلى الله عليه وسلم کے بعد دورِ ابی بکر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ، اور دیگر صحابہ کے کے مشورے سے اس کی تدوین عمل میں آئی، یعنی اس کو یکجا کر لیا گیا اور دورِ عثمانی میں اس کی تنسیخ‘ عمل میں آئی، یعنی اس کے مختلف نسخے بناکر کوفہ، بصرہ، شام، مکہ وغیرہ جہاں جہاں مسلمان آباد تھے بھیج دیے گئے، یہ تو تحریری صورت میں حفاظت کا انتظام ہوا، ا س کے علاوہ اس کو لفظ بلفظ یاد کرنے کا التزام کیا گیا، وہ الگ۔ اس طرح قرآن سینہ و سفینہ دونوں میں مکمل لفظاً محفوظ ہوگیا، اور یہ سلسلہ نسلاً بعد نسلٍ آج بھی جاری ہے، قیامت تک جاری رہے گا، انشاء اللہ، اللہم اجعل القرآن ربیع قلوبنا و جلاء اعیننا.

(۲) جہاں اللہ رب العزت نے اس کے متن کی حفاظت کی، وہیں اس کے معنی و مفہوم اور مراد کی حفاظت کا بھی انتظام کیا، اس لیے کہ صرف الفاظ کا محفوظ ہونا کافی نہیں تھا، کیوں کہ مراد اور معنی اگر محفوظ نہ ہو، تو ا س کی تحریف یقینی ہوجاتی ہے، کتب سابقہ کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا، کیوں کہ اس کے الفاظ اگرچہ کچھ نہ کچھ محفوظ رہے، مگر اس کے معانی و مفہوم تو بالکل محفوظ نہ رہے، اس لیے کہ انہوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے اقوال و افعال و اعمال کو محفوظ رکھنے کا کوئی انتظام نہ کیا، جس کے نتیجہ میں الفاظ محفوظہ بھی کارگر ثابت نہ ہوسکے، مثلاً عیسائی مذہب ان کا کہنا ہے کہ ہمیں دو اصولوں کی تعلیم دی گئی، اور ہم اس کے علمبردار ہیں: نمبر ایک عدل و انصاف۔ نمبردو محبت و الفت۔ مگر اگر آپ، ان سے دریافت کریں کہ عدل و انصاف کس کو کہتے ہیں، تو وہ اس کا مفہوم نہیں بیان کرسکتے۔ یہی حال محبت کا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس عدل اور محبت کی پرواہ کیے بغیر لاکھوں نہیں، کروڑوں انسانوں کو عیسائیت کے فروغ کی خاطر قتل کر دیا گیا، اور یہ سلسلہ ابھی تک تھما نہیں۔ اسی طرح یہودیت کی اصل بنیاد اس اصول پر ہے،کہ تم اپنے پڑوسی کے لیے وہی پسند کرو،جو اپنے لیے پسند کرو۔ لیکن اگر آپ یہود کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا،کہ انہوں نے اپنے پڑوسیوں کو جتنا ستایا، اتنا دنیا میں کسی نے اپنے پڑوسیوں کو نہیں ستایا ہوگا، اور اب بھی اس کا سلسلہ جاری ہے، جو اسرائیل کی جارحیت سے عیاں ہے، مگر اسلام، الحمد للہ سنت نبوی کے پورے اہتمام کے ساتھ محفوظ رہنے کی وجہ سے، قرآن کی تعلیمات پر مکمل طور پر محفوظ چلا آرہا ہے۔ اس طرح اللہ نے سنتِ رسول جس کو احادیث رسول صلى الله عليه وسلم بھی کہا جاتا ہے، کے ذریعہ معانی و مفاہیم اور مراد الٰہی کو محفوظ رکھنے کا انتظام کیا۔ اس لیے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے قرآن کی جو تفسیر کی، جسے ”تفسیر بالمأثور“کہا جاتا ہے، جس پر امام سیوطی، امام ابن کثیر وغیرہ، بے شمار علماء نے تفسیر یں لکھیں، اور ہر آیت کی تفسیر، حدیث رسول سے کرکے دکھائی، وہ درحقیت اللہ ہی کی جانب سے ہے، کیوں کہ قرآن نے اعلان کیا ہے ”ان علینا بیانہ“ ( سورة القیٰمة: پ۲۹/۱۹)یعنی اس قرآن کی تفسیر بھی ہم نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ا یک جگہ پر”جمعہ وقرآنہ“ ہے، ایک جگہ ارشاد ہے ”وما ینطق عن الہویٰ ان ہو الا وحی یوحی“ آپ صلى الله عليه وسلم کوئی بات اپنے جی سے نہیں کرتے، بلکہ وحی خدا وندی ہی ہوتی ہے ۔ اسی کو کسی فارسی شاعر نے کہا:

گفتہٴ او گفتہ اللہ بود

گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

اس پوری گفتگو سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ ”تفسیر بالمأثور“ درحقیقت اللہ ہی کی، کی ہوئی تفسیر ہے، اور ظاہر ہے اللہ ہی اپنی مراد کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ لہٰذا حدیث کی حفاظت سے معانی و مراد خداوندی بھی محفوظ ہوگئے؛ اللہ ہمیں کتاب اللہ اور سنت رسول پر مرمٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

(۳) قرآن کے الفاظ و معانی کے ساتھ ساتھ، وہ جس زبان میں نازل ہوا،وہ زبان یعنی عربی زبان بھی محفوظ۔ اس کے لیے بھی اللہ نے عجیب انتظام کیا، اس طور پر کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا ”احبوا العرب لثلاث انی عربی، ولسان أہل الجنة عربی، والقرآن عربی“ قرآن نے خود اعلان کیا ”بلسان عربی مبین“ ( سورة الشعراء: پ۱۹/۱۵۹)ہم نے قرآن کو صاف ستھری عر بی زبان میں نازل کیا۔اگر آپ لسانیات کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا دنیا کی کوئی زبان تین چار سو سال سے زیادہ محفوظ نہ رہ سکی، یا تو وہ ختم ہوگئی یا کسی دوسری زبان میں ضم ہوگئی، یا ایسے تغیر و تبدل کی شکار ہوگئی کہ اس کی پہلی ہیئت باقی نہ رہ سکی، مگر عربی زبان مسلمانوں کی توجہ و عنایت کا ایسا شہکار ہے، جو بیان سے باہر ہے؛ اولاً خود نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے صحابہ  كرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کی تربیت میں عربی زبان کی نوک و پلک کی درستگی کو خوب اہمیت دی، آپ صلى الله عليه وسلم کے بعد حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے بھی، اپنی توجہ کو اس پر مبذول کیا، جیسا کہ حضرت ابوبکررضي الله تعالى عنه، حضرت عمررضي الله تعالى عنه اور دیگر صحابہ كرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کی سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے ، یہاں تک کہ حضر ت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ تعالی عنہ نے تو نحو عربی و صرف عربی کی بنیاد ڈال کر، اسے خاص توجہ کا مرکز بنایا، اور پھر آپ کے بعد اُمت کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا، جس نے اپنی زندگیاں اسی زبان کی حفاظت و ترویج میں وقف کردی، ابوالاسود الدُویلی ،امام سیبویہ، اما م خلیل فراہیدی، امام کسائی، امام فراء، امام مبرد، امام اخفش، امام یعصم، امام تغلب، امام ثعلب، امام یشکر، امام ابن حاجب، امام ابن ہشام، امام ابن عقیل، امام ابن جنی، امام نفطویہ، امام زازویہ، امام خالویہ، امام راہویہ وغیرہ نے اپنی پوری زندگیاں صرف و نحو ، علمِ بیان وغیرہ کی حفاظت کے لیے وقف کردیں، جس کی برکت سے آج بھی عربی زبان اسی اصل ہیئت پر باقی ہے، جس ہیئت پر وہ نزول قرآن کے وقت تھی، اور قیامت کے وقوع سے پہلے پہلے تک جب تک اس قرآن کو باقی رکھنے کی اللہ کی مشیت ہوگی، امت کی ایک جماعت اس کارِخیر میں مشغول رہے گی، انشاء اللہ۔

(۴) صرف الفاظ و معانی اور قرآنی زبان ہی کی حفاظت پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا، بل کہ اس کے الفاظ و معانی کی عملی صورت کی حفاظت کا بھی پورے پورے انتظام کیا گیا، اس طور پر کہ قرآن جس لفظ میں نازل ہوتا، نبی کریم صلى الله عليه وسلم اس کی مراد و حی کی روشنی میں صحابہ کو سمجھاتے، اور سمجھانے کے بعد اسکو عملاً بطور نمونہ، کرکے بھی بتلاتے تھے، جسکو آج کی زبان میں تھیوری (Theory)کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل (Practical)کا بھی اہتمام کیا جاتا، مثلاً نماز، قرآن نے صرف یہ الفاظ کہے ”اقیموا الصلوة“ (سورة البقرة: ۱/۴۳) نماز قائم کرو، مگر پورے قرآن میں کہیں اس کی پوری تفصیل بالترتیب نہیں بتائی گئی، ہاں کہیں قیام، کہیں رکوع، کہیں سجود کو متفرق طور پر بیان کیا گیا، جب کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اس کا طریقہ بالترتیب صحابہ کو بتایا، اور پھر اس کو عملی طور پر کرکے دکھایا اور کہا ”صلوا کما رأیتمونی اصلی“ نماز ایسی ہی پڑھو جیسی مجھ کو پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ صحابہ نے ایسا ہی کیا، پھر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد صحابہ نے بھی بدستور اس پر عمل جاری رکھا، اور تابعین بھی انہیں جیسا کرتے رہے ، گویا انہوں نے بھی ہوبہو ایسا ہی کیا، اس کے بعد تبعِ تابعین، اس طرح آج تک نسلاً بعد نسلٍ اور قرناً بعد قرنِ امت کا اس پر تعامل، اس طرح عملی صورت بھی محفوظ ہوگئی، یہ تو ایک مثال ہے، ورنہ صلوہ العید، صلوة الجنازة، زکوٰة، صدقہ، قربانی، تلاوت قرآن وغیرہ سب کی عملی صورت آج تک امت کے ذریعہ اللہ رب العزت نے محفوظ رکھی، اسی لیے جب کوئی قرآن کی تفسیر و تشریح میں من مانی کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو اُمت میں اس کو تلقی بالقبول (مقبولیت) حاصل نہیں ہوتا، البتہ کچھ افراد جو مفادپرست ہو یا ان کی اسلامی تربیت نہ ہوئی ہو، یا ضروری علم دین سے واقف نہ ہو، اس کے تابع ہو جاتے ہیں، اور ایسا تو دنیا میں ہوتا ہی ہے، عربی میں محاورہ مشہور ہے ”لکل ساقطة لاقطة“ ہرگری پڑی چیز کا کوئی نہ کوئی اٹھانے والا ہوتا ہے۔

 خلاصہٴ کلام یہ کہ قرآن کے مفاہیم و مرادوں کو بھی اللہ رب العزت نے تعامل کے ذریعہ محفوظ رکھا، یقینا دنیا کی کوئی طاقت اللہ کی مشیت کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ واللہ غالب علی امرہ و لکن اکثر الناس لایعلمون(سورة یوسف:۱۲/۲۱)۔

(۵) میرے عزیزو! قربان جائیے اس رب کائنات پر ،جس نے اپنی کتاب کی حفاظت کے لیے ایسے ایسے انتظام کیے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، اور انسان اس کی کرشمہ سازیوں پر سر دھندتا رہ جاتا ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جس ماحول میں قرآن کا نزول ہوا، جس سیاق و سباق میں آیتیں نازل ہوئی، اس ماحول کو بھی تحفظ اور دوام بخشا گیا، حدیث کے ذخیرے نے وہ پورا ماحول اس کی منظر کشی اور نقشہ کشی ہمارے سامنے رکھ دی، جب طالب حدیث اس کو پڑھتا ہے، تو اس کے سامنے چشم تصور میں وہ سارا منظر متشکل ہو کر آجاتا ہے، جس منظر میں قرآن کریم نازل ہوا، جس پس منظر اور پیش منظر میں، قرآن مقدس کے احکام و ہدایات پر صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے، صاحبِ وحی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حاضری اور موجودگی میں عمل درآمد شروع کیا، جس کو علم حدیث میں ”حدیثِ مسلسل“ کہا جاتا ہے، اس کی صورت یہ ہوئی کہ راوی نے، حدیث کو جب نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے سنا، یا دیکھا، تو اس وقت جو کیفیت تھی، راوی جس سے روایت بیان کرتا ہے، اس کے سامنے وہی انداز و اسلوب اختیار کرتا ہے، جس انداز سے اس نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے اس حدیث کو اخذ کیا ہو، اور وہ پوری کیفیت بعینہ کرکے دکھاتا ہے، جو نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے صادر ہوئی ہو، مثلاً ”حدیث مسلسل بالتشبیک“ اس کاو اقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو گناہ اور توبہ کے وقت ایمان کی کیفیت کو بیان کیا، کہ اگر بندہ گناہ کرتا ہے، تو ایمان اس کے دل سے نکل جاتا ہے، اور جب توبہ کرتا ہے تو وہ دوبارہ دل میں داخل ہو جاتا ہے، اور آپ نے اپنی انگلیوں کو پروکر علیحدہ کیا اور کہا ایمان گناہ کے وقت اس طرح نکل جاتا ہے، ا ور جب توبہ کرے تو دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر پروکر (جس کو تشبیک الاصابع کہتے ہیں) بتایا، پھر اس صحابی نے بھی اس روایت کو بیان کرکے، اسی طرح کرکے بتایا، اس طرح یہ سلسلہ آج تک چلا آرہا ہے بظاہر ایسا کرنے سے کوئی فائدہ سمجھ میں نہیں آتا، اگر نہ بھی کیا جاتا تو بات سمجھ میں آجائی گی، مگر اس کا ایک اضافی فائدہ یہ ہوتا ہے، کہ نفسیاتی اور جذباتی طور پر انسان اس ماحول میں چلا جاتا ہے، جس ماحول میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اس بات کو بیان فرمارہے تھے، مسجد نبوی میں یا جس مقام پر حضور اقدس صلى الله عليه وسلم اس کو بیان فرمارہے تھے، تو روحانی طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں وہاں موجود ہوں، اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے اس عمل کو صحابہ، تابعین اور تبع تابعین اور حدیث کے اساتذہ اور طلبہ کے ذریعے دیکھتا چلا آرہا ہوں، بالکل اسی طرح کی کیفیت ”اسباب نزول آیات“ کے بولتے اور سنتے وقت ہوتی ہے۔

سبب نزول کہتے ہیں، حدیث میں وارد، اُن واقعات کو جوکسی آیت کے نزول کے وقت پیش آیا ہو، اس سے قرآن فہمی میں بڑی مدد ملتی ہے، کیوں کہ جب آیت کا سبب نزول معلوم ہو جائے، تو اس پرمرتب احکام کا درجہ بھی معلوم ہو جاتا ہے، اگرچہ یہ ضروری بھی نہیں قرار کیا گیا، کہ ہر آیت کا سبب نزول ہو، مستقلاً علماء نے اس پر تصانیف چھوڑی، مثلاً امام جلال الدین سیوطی، امام واحدی وغیرہ نے۔

(۶) قرآن کریم کی حفاظت کی غرض سے جہاں بہت ساری چیزوں کو تحفظ بخشا گیا، وہیں سیرت نبوی یعنی نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی زندگی کے حالات کو بھی محفوظ کیا۔ کیوں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے قرآنی مطالبات پر عمل کرکے بتایا تاکہ کل آکر کوئی ایسا نہ کہے ہم قرآنی مطالبات پر عمل نہیں کرسکتے، یہ تو بڑے شاق اور دشوار گذار ہیں، تو بطور نمونہ کے آپ نے عمل کرکے بتلایا اور عمل بھی ایسا، جیسا اس پر عمل کرنے کا حق ہے، اسی لیے حضرت عائشہ صدیقہ رضي الله تعالى عنه سے، حضور اقدس صلى الله عليه وسلم کے اخلاق کے بارے میں جب دریافت کیا گیا، تو آپ رضي الله تعالى عنها نے کہا کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ کہاں ہاں۔ تو آپ نے فرمایا ”کان خلقہ القرآن“ آپ قرآن کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔ جہاں کوئی امر نازل ہوا، فوراً عمل کرکے بتایا، اسی لیے قرآن نے اعلان کر دیا ”لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة“ (سورة الاحزاب:پ۲۱،آیت۲۱)آپ صلى الله عليه وسلم کی زندگی، اے مسلمانو! تمہارے لیے نمونہ ہے، دنیا میں کسی ہستی کی سیرت و حیات پر اتنا کام نہیں ہوا جتنا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حیات مبارکہ پر ہوا، اور ہوتا چلا جارہا ہے، آج بھی اس کی افادیت میں کوئی کمی محسوس نہیں ہورہی ہے، بل کہ مزید اس کی افادیت میں اضافہ ہو رہا ہے، اللہم اجعلنا ممن یتبع الرسول و یطیعہ.

(۷) نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی ذات اقدس کو اللہ رب العزت نے اپنی آخری کتاب قرآن کے نزول کے لیے منتخب کیا اور آپ کے لیے آخری دین، دین اسلام کو تجویز کیا، قرآن کی حقانیت کوباقی رکھنے کے لیے اس کے تقدس و علو مرتبت کو ثابت کرنے کے لیے صاحب قرآن کی عظمت اور تقدس کو باقی رکھنا بھی امرِ ناگزیر تھا، اللہ رب العزت نے اس کے لیے جو حیرت انگیز اور تعجب خیز انتظام فرمایا، اسی میں سے ایک یہ کہ آپ کے نسب مبارک کو بھی مکمل محفوظ کیا گیا، عرب جو امی ، اَن پڑھ تھے، مگر اس کے باوجود اقوام عالم میں ان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ اپنے انساب کے یاد رکھنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے یہی اہتمام بعد میں چل کر ایک فن کی حیثیت اختیار کر گیا، اور اس پر کتابیں بھی لکھی گئیں، مثلاً الانساب للامام السمعانی وغیرہ، علم الانساب کہتے ہیں اس ریکارڈ کو جس میں یہ محفوظ کیا جائے کہ کون سا قبیلہ کہاں سے وجود میں آیا، کس قبیلے کے کس آدمی کا باپ کون اس کا دادا کون، اسی طرح اوپر تک اس کی شادی کہاں ہوئی، اس کی اولاد کتنی تھی، عربی قبائل میں کس قبیلے کی کس قبیلے کے ساتھ رشتہ داری تھی وغیرہ۔

اب کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ عربوں کو ان موضوعات سے دلچسپی رہی ہوگی، یا انہیں اس طرح کی معلومات کے جمع کرنے کا شوق رہا ہوگا، لیکن بات اتنی کہنے سے نہیں ٹلتی، ڈاکٹر محمود احمد غازی ایک حیرت انگیز بات کا انکشاف کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ” جب ہم انساب کی کتابوں کا جائزہ لیتے ہیں، اور ان کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ایک عجیب و غریب بات سامنے آتی ہے، بہت عجیب وغریب، اتنی عجیب و غریب، کہ اس کو محض اتفاق نہیں کہا جاسکتا، وہ عجیب و غریب بات یہ سامنے آتی ہے کہ جتنی معلومات محفوظ ہوئیں، وہ مرکوز ہیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی شخصیت پر حالاں کہ جس وقت انساب کی حفاظت کا کام شروع ہوا، اس وقت تو حضور صلى الله عليه وسلم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے“۔ مگر اللہ کو منظور تھا کہ آپ کا نسب مکمل محفوظ اور منسلک رہے تاکہ آپ کے آباء و اجداد کی علو شان، ان کی پاکبازی سے آپ کی خاندانی شرافت اور کرامت کا ثبوت فراہم ہو، اور یوں صاحب قرآن کی شان بھی قرآن کے شایان شان ہونے کا ثبوت مہیا ہو جائے، اور کسی بھی ذی ہوش و خرد مند کے لیے آپ کی تکذیب کا سوال باقی نہ رہے، اور آپ کی تصدیق دل و جان سے قبول کرلے، ہاں مگر یہ کہ اس میں حسد و عناد، شرکشی و شرارت ہو، اس طرح قرآن کی حفاظت اس کے وقار اور اس کی حقانیت کے ثبوت کے لیے اللہ رب العزت نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے نسب مبارک کو محفوظ کرلیا، واللّٰہ علی کل شئ قدیر. (سورة البقرة:پ۱،آیت۱۰۶) واللّٰہ غالب علی امرہ و لکن اکثر الناس لایعلمون.(سورة یوسف:پ۱۲،آیت۲۱)

(۸) قرآن کے نزول کے وقت اس کے اولین مخاطب اور اس کے اولین حاملین حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین جو براہِ راست مخاطب تھے، قرآن کی حفاظت کے لیے اللہ نے ایک انتظام اور بندوبست یہ بھی کیا کہ حضرات صحابہ کرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کے حالات کو محفوظ کروالیا، ایک اندازے کے مطابق صحابہ کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز تھی، مگر ان میں سے اکثریت آخری دور میں قبولیت اسلام سے شرف یاب ہوئی، اس اولین حاملین، جنہیں قدیم الاسلام یا اولین موٴمنین کہا جاتا ہے، ان کی تعداد کم و بیش پندرہ بیس ہزار رہی ہوگی، اور جن صحابہ نے آپ سے زیادہ کسبِ فیض کیا، ان کے حالات کو بھی اللہ نے محفوظ کرلیا، تاکہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ ساتھ ان کے حالات کا علم ہو جائے اور انہوں نے ایمانی تقاضوں اور اسلامی مطالبات کو، جس حسن و خوبی کے ساتھ عملی جامہ پہنایا، اس کی معرفت بھی حاصل ہو جائے تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے، محمد عربی صلى الله عليه وسلم تو رسول تھے، ان کے ساتھ اللہ کی خاص عنایت و رحمت تھی، انہوں نے اگر عمل کیا، یہ ان کی امتیازی شان تھی، مگر جب صحابہ کی زندگیاں بھی اسی نقش قدم پر پائی، تو معلوم ہو جاتا کہ ایسا نہیں اگر انسان ارادہ کرلے، تو مکمل ایمانی تقاضوں کو پورا کرسکتا ہے، جیسا کہ صحابہ نے پورا کیا، اسی لیے قرآن نے کہا ”امنوا کما آمن الناس“ ایمان لاوٴ صحابہ جیسا ایمان لائے۔ اس میں الناس پرالف لام عہدِ خارجی کا ہے، یعنی حضرات صحابہ۔

صحابہ کے حالات میں ایک عجیب پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ جو صحابہ نبی کریم صلى الله عليه وسلمسے جتنا قریب تھے، ان کے حالات اتنے ہی زیادہ تفصیل کے ساتھ ملتے ہیں، صحابہ کے حالات کی حفاظت کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ صاحب قرآن کے اصحاب و احباب کا جب علم ہو تو اس سے آپ کے محبِ خیر بل کہ سراپا خیر ہونے کا اندازہ ہو، کیوں کہ آدمی اپنے دوستوں سے جانا جاتا ہے، حدیث شریف میں ”فانظر الی من یخالل“ کہ جب تم کسی کے بارے میں جاننا چاہو تو دیکھو کہ وہ کیسے لوگوں کے ساتھ رہتا ہے، تو اس سے معلوم ہو جائے گا کہ یہ کیسا ہے، انسانی تاریخ میں حضرات انبیاء کرام کے بعد اگر کوئی مقدس اور بہترین گروہ ہے تو وہ گروہِ صحابہ ہے، لہٰذا قرآن اور صاحب قرآن کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا بھی ضروری تھا کہ قرآن پر اجتماعی عمل کیسے ہو؟ سنت اور قرآن کی اجتماعی تشکیل کس طرح ہوں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں امت نے کیسے جنم لیا؟ اور ان سوالات کے جوابات مکمل نہیں ہو سکتے تھے، مگر صحابہ کے احوال کے جانے بغیر، لہٰذا اللہ نے انتظام کیا، اور اولین حاملین قرآن اور اولین عاملین میں سے تقریباً پندرہ ہزار نفوس قدسیہ کے حالات نام بہ نام نسل بہ نسل دستیاب ہیں، اور الحمد للہ امت تب سے لے کر اب تک اور قیامت تک ان کے نقوش و خطوط سے استفادہ کرتی رہے گی، اور قرآن پر عمل کرنے کے لیے اسے معاون سمجھتی رہے گی، و اللہ لطیف بالعباد۔

(۹) اب جب صحابہ جو قرآن کے الفاظ و معانی کے ساتھ ساتھ اس پر انفرادی و اجتماعی طور پر عمل کرنے والے اور دنیا کو یہ بتانے والے ٹھہرے کہ قرآن قابل عمل ہی نہیں دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی کا ضامن ہے، تو ان کے حالات کے جاننے کے لیے، ان کے اصحاب جن کو تابعین کہا جاتا ہے، کے حالات کا قلمبند ہونا بھی ضروری تھا، تاکہ صحابہ کے حالات ہم تک یعنی ان کے بعد والوں تک صحیح طور پر پہنچے، تو اس کے لیے، ان تابعین وتبعِ تابعین کے احوال کا تحفظ بھی ضروری تھا، کرشمہٴ الٰہی دیکھئے کہ ایسے چھ لاکھ افراد کے بارے میں پورا بایوڈاٹا یعنی مکمل معلومات کو بھی اللہ نے تحفظ بخشا اور وہ بھی سرسری نہیں بلکہ ان کی پوری تفصیلات کے ساتھ، کہ یہ کون تھے؟ کس زمانہ میں پیدا ہوئے؟ ان کی شخصیت کس درجہ کی تھی؟ ان کا علم وفضل کس درجہ کا تھا؟ انہوں نے کس کس سے کسبِ فیض کیا؟ ان کا حافظہ کیسا تھا؟ ان میں کیا اچھائیاں تھیں وغیرہ۔ غرضیکہ اس طور پر منقی و مصفی کرکے سامنے رکھ دیا گیا ہے، کہ آدمی ان کی شخصیت سے اطمینان بخش حد تک معلومات حاصل کرلے۔ اس کو فن ”اسماء رجال“ سے تعبیر کیا گیا۔ اور ڈاکٹر محمود احمد غازی فرماتے ہیں کہ یہ ایسا فن ہے کہ اس کی مثال دنیا کے کسی مذہبی و غیر مذہبی فن میں نہیں ملتی، نہ مذہبی علوم میں اس کی مثال اور نہ غیر مذہبی علوم میں۔

خلاصہٴ کلام یہ کہ وہ چیزیں ہیں، جس کو قرآن کی حفاظت کی خاطر اللہ رب العزت نے حیرت انگیز انداز میں تحفظ بخشا، اوراپنے کامل قدرت کا مظاہرہ کیا، اللہ ہمیں قرآن کی قدردانی کی توفیق عطافرمائے اور ہمارے ظاہر وباطن کو قرآن کے منشاء کے مطابق بنادے۔ آمین یا رب العالمین!

_______________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 5‏، جلد: 92 ‏، جمادی الاولی 1429 ہجری مطابق مئی 2008ء